دو ذمے داروں میں الزامات کا تبادلہ

296

سندھ کے آئی جی کلیم امام کی صوبے سے بے دخلی کے لیے حکمراں پیپلزپارٹی کی کوششیں اپنی جگہ، مگر اس ضمن میں صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ اور ان کے بھائی پر ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان احمد خان نے جو الزامات لگائے ہیں اور امتیاز شیخ نے ڈاکٹر رضوان احمد پر جو جوابی الزامات لگائے ہیں ، ان سے سندھ میں حالات کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹر رضوان احمد خان نے ڈی آئی جی لاڑ کانہ کو دی گئی اپنی خفیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امتیاز شیخ جرائم پیشہ افراد کے سرپرست ہیں ، ان کے ڈاکوؤں سے روابط ہیں اور وہ اغوا اور قتل جیسی وارداتوں میں ملوث ہیں ۔ نہ صرف امتیاز شیخ بلکہ اُن کے بھائی مقبول شیخ اور بیٹا فراز شیخ بھی ایسے ہی سنگین جرائم میں ملوث ہیں ۔ ڈاکٹر رضوان احمد خان نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ امتیاز شیخ نے پولیس میں من پسند افراد بھرتی کروائے جس کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ۔ کچے کے علاقے میں کیے گئے آپریشن بھی امتیاز شیخ کی وجہ سے ناکامی کا شکار ہوئے ۔ امتیاز شیخ نے جوابی الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد خان خود اسمگلنگ ، اغوا اور پٹرول چوری میں ملوث رہے ہیں ۔ ڈاکٹر رضوان اور امتیاز شیخ نے جو کچھ بھی ایک دوسرے کے بارے میں کہا ہے وہ اس لحاظ سے انتہائی سنگین ہے کہ دونوں ہی انتظامیہ کا حصہ ہیں ۔ اگر ڈاکٹر رضوان کے الزامات درست ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سندھ کی حکمراں پارٹی کیا گُل کھلارہی ہے اور اگر امتیاز شیخ کے الزامات درست ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ قانون کے رکھوالے مجرموں کی بیخ کنی کرنے کے بجائے خود ہی ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ۔ بادی النظر میں امتیاز شیخ اور ڈاکٹر رضوان دونوں ہی اپنی اپنی جگہ درست معلوم ہورہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ چوروں میں پھوٹ پڑنے کی وجہ سے اندر کے معاملات سامنے آگئے ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ ہی ازخود نوٹس لے اور فریقین سے عاید کیے گئے الزامات کے ثبوت طلب کرے ۔ شواہد پیش کرنے میں جو فریق ناکام رہے ، اسے بہتان طرازی اور کردار کشی کے الزام میں سزا دی جائے اور جرم ثابت ہونے پر ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جانی چاہیے ۔ دیگ کے ایک چاول سے دیگ کی صورتحال کا اندازہ لگالیا جاتا ہے ۔امتیاز شیخ اور ڈاکٹر رضوان کی جانب سے کی جانے والی الزام تراشی سے صوبہ سندھ میں جرائم کی شرح میں اضافے کی وجہ جانی جاسکتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اگر اس گھناؤنے کھیل کا حصہ نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر اس صورتحال کا نوٹس لینا چاہیے ۔ کم از کم فوری طور پر امتیاز شیخ اور ڈاکٹر رضوان کو ان کے مناصب سے سبکدوش کرکے ان سے شواہد طلب کیے جانے چاہییں ۔ یہ امر واضح ہے کہ صرف دو تین افراد ہی مجرموں کی سرپرستی نہیں کررہے ہوں گے اور لوگوں کے اغوا، قتل اور سرکاری املاک کے قبضے میں ملوث نہیں ہوں گے ، کئی اور وزراء ، معاونین اور مشیران بھی ایسے ہی معاملات میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح پولیس اور انتظامیہ کے دیگر افسران بھی ایسے ہی گھناؤنے جرائم میں شامل ہوں گے۔