بعض لوگ عجیب و غریب ہوتے ہیں مگر ہم من حیث القوم عجیب و غریب ہیں۔ قوم غریب ہے اور ان پر مسلط حکام عجیب ہیں، سکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں نہ بولنے کے بعد سوچتے ہیں مگر ہمارے حکام بولتے بہت ہیں، سوچتے کم ہیں۔ وزیراعظم عمران خان بھی بولتے بہت ہیں مگر سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کیوں کہ ان کی ’’انا‘‘ قربانی کے بکرے سے زیادہ صحت مند ہے۔ نیب کے اختیارات میں ترمیم بہت اچھا اقدام ہے مگر یہ اچھا اقدام خان صاحب کے بولنے سے متنازع بن گیا کیوں کہ عمران خان نے ترمیم کی وجہ یہ بتائی کہ ’’میرے کچھ دوست نیب سے بہت ہراساں اور پریشان تھے اب ان کی پریشانی اور خوف و ہراس ختم ہوگیا ہے۔ میرے دوست اس ترمیم سے بہت خوش ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ وزیراعظم کو ایسا بیان دینے کی کیا ضرورت تھی؟۔ وطن عزیز کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ حکمران طبقے جی بھر کر بولتے ہیں مگر بولنے سے پہلے سوچتے ہیں نہ بولنے کے بعد سوچتے ہیں، شاید وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کا کہا پتھر کی لکیر ہے۔ ہمارے اداروں کے سربراہان کو بولنے کا بہت شوق ہے، کشمیر بنے گا پاکستان کا ورد کرتے رہتے ہیں، مگر اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اقوام عالم کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کشمیری آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، آپ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے تو عالمی برادری بھی آپ کا ساتھ دے گی۔
اقلیت کا کوئی بندہ توہین رسالت کا مرتکب ہوتا ہے تو پوری قوم ایک زبان ہو کر پھانسی دو، پھانسی کی گردان کا ورد کرنے لگتی ہے مگر ایک جسٹس نے جنرل پرویز مشرف کے فیصلے میں جو کچھ لکھا ہے اسے غلطی قرار دیا جارہا ہے، کوئی بھی مسلمان جس کے سینے میں رَتی بھر بھی ایمان ہو وہ میت کی بے حرمتی کے بارے میں نہیں سوچ سکتا، یہ شریعت کی توہین ہے، مذہب کی تذلیل ہے، مگر توہین رسالت پر احتجاج کرنا ایمان کا حصہ سمجھنے والے کانوں میں تیل اور منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے ہیں، اگر اقلیت کے کسی بندے پر توہین رسالت کا الزام لگادیا جائے تو گردن زدنی قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصے قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پاکستان میں اقلیتوں کو غیر محفوظ قرار دیا تھا ایسے حالات میں اقوام عالم ہمارے بارے میں جو کچھ کہہ رہی ہے، سوچ رہی ہے اس کا مداوہ کون کرے؟ وزیراعظم عمران خان صحابہ کرام کے بارے میں تضحیک آمیز بیان دیں، قرآن پاک میں تحریف کریں تو عدلیہ کہتی ہے کہ ان کے کہنے کا غلط مطلب لیا گیا ہے، غلطی تو اقلیت سے بھی ہوسکتی ہے۔ اقلیت فطری طور پر اکثریت سے خائف رہتی ہے، پاکستان کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ کانگریس سے خوف زدہ تھی اسی لیے قیام پاکستان کی متمنی تھی، اس کی خواہش تھی کہ وہ ہندو اکثریت سے دور رہے تا کہ اس کی شرانگیزی سے محفوظ رہے اس خواہش نے ہوش و حواس مختل کردیے۔ یہ سوچا ہی نہیں کہ پاکستان کے حصول کے بعد کیا کرنا ہوگا اور کیسے ہوگا؟ اس کا نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے، مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا اور آج اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہے اور ہم کشکول اٹھائے عالمی بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ جس دروازے سے بھیک ملتی ہے وہاں سے سر جھکا کر گزرنا فطرت بن جاتی ہے۔ ہم سعودی عرب کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں مگر وہاں پاکستانیوں کی تذلیل اور بھارتیوں کی عزت کی جاتی ہے۔ کیوں کہ بھارت جو افرادی قوت عرب ممالک کو دیتا ہے انہیں باقاعدہ تربیت دیتا ہے وہ ایسے افراد کا انتخاب کرتا ہے جو اپنے کام میں مہارت رکھتے ہوں، عربی زبان کو سمجھنے کی تھوڑی بہت شدبد بھی رکھتے ہیں۔