طب مشرق میں مزاج کی اہمیت حکیم عبدالحنان

1672

کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ مختلف موسموں میں مختلف اشیا کیوں استعمال کرتے ہیں؟مثلاً گرمیوں میں آپ ککڑی ، کھیرے اور ٹھنڈے مشروبات پسندکرتے ہیں جب کہ سردیوں میں خشک میوے اور انڈے وغیرہ آپ کی غذا میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ آپ کہیں گے کہ ککڑی اور کھیرے کا مزاج سرد ہے اور خشک میوے اور انڈے کی تاثیر گرم ہے ، موسم کے شدید اثرات کو زائل کرنے کے لیے یہ اشیاء استعمال کی جاتی ہیں ۔
آپ کا کہنا بجا ہے ۔ آپ اس بات سے بھی واقف ہوں گے کہ ہر شے کی طرح انسان بھی مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اس مضمون میں ہم اسی موضوع یعنی ’’ مزاج‘‘ سے آپ کو متعارف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لفظ’’ کوشش‘‘ ہم نے اس لیے استعمال کیا ہے کہ ’’ مزاج‘‘ ایک خاصا طویل اور مشکل مضمون ہے ، جو طب مشرق میں بڑی تفصیل سے پڑھایا جاتا ہے اور طب مشرق میں یہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسی کے گرد انسانی جسم ، صحت ، مرض ، ادویہ اور علاج گھومتے ہیں ۔ اتنے طویل معاملات کو ایک مختصر سے مضمون میں سمونا خاصا دشوار ہے ۔
مزاج کے لغوی معنی ہیں’’ ملنا‘‘ اسی سے ’’ امتزاج‘‘ کا لفظ بنا ہے ۔ اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ جب دو یا دو سے زیادہ زائد چیزیں آپس میں مل کر ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں تو ایک تیسری کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ جس کو’’مزاج‘‘ کہا جاتا ہے ۔
طب مشرق میں مزاج کو9 اقسام میں تقسیم کیا گا ہے ۔ پہلا طبعی مزاج’’ نارمل‘‘ ہے ۔ اس کے بعد چار سادہ مزاج بیان کیے گئے ہیں ۔ گرم ، سرد ، تر ، خشک ، پھر چار ہی مرکب بیان کیے گئے ہیں ، جن میں دو دو کیفیات شامل کی گئی ہیں ۔ گرم و تر ، گرم و خشک ، سرد و تر ، سرد و خشک ، اس طرح مزاج نو اقسام کا ہو جاتا ہے ۔ان مزاجوں کے ا متزاج سے مزید کئی مزاج جنم لیتے ہیں ۔
یہی مزاج انسان کے جسم کے علاوہ غذائوں اور دوائوں میں بھی پائے جاتے ہیں جن کا لحاظ ، علاج کراتے وقت یا غذا استعمال کرتے ہوئے رکھنا چاہیے ۔
انسانی جسم میں ایک تو پورے جسم کا طبعی مزاج ہوتا ہے اور دوسرے ہر عضو کا اپنا الگ الگ مخصوص مزاج ہوتا ہے ۔مثلاً قلب ، جگر ، گوشت کا مزاج گرم ہو تا ہے ۔ کیونکہ ان میں سے خون کا گزر زیادہ ہے اور خون جسم میں درجہ حرارت بر قرار رکھنے کا ذریعہ ہے ۔ اسی طرح بالوں ، ہڈیوں اور ناخنوں کامزاج سرد و خشک ہے اور جتنی سفید رنگ کی رطوبات جسم میں موجود ہیں ۔ ان کا مزاج سرد و تر ہے ۔
اب اگر جسم کے درجہ حرارت کو مثال بنا کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پورے جسم کا ایک نارمل درجہ حرارت ہوتا ہے ۔مگر ضروری نہیں کہ قلب ، جگر ، دماغ اور ہڈیوں کے درجہ حرارت بھی اتنے ہی ہوں ۔ یہ سب مختلف ہوں گے ۔ طب مشرق میں درجہ حرارت کے ساتھ ستھ جسم میں تری یا خشکی کا لحاظ رکھا جاتا ہے مثلاً خون میں ایک خاص تناسب سے آبِ خون یا بلڈ سیرم شامل ہے۔اگر کسی وجہ سے اس میں کمی واقع ہو گی تو خون گاڑھا ہو جائے گا اور سُدّے بننے لگیں گے اور اور امراض قلب و دماغ پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا ۔ اس طرح اگر یہ تناسب زیادہ ہونے لگے تو خون پتلا ہو جائے گا اور جگہ جگہ سے جریانِ خون کا خطرہ بڑھ جائے گا اور جسم کی نشو و نما صحیح طریقے پر نہیں ہوسکے گی ۔
ہڈیوں کامزاج سرد و خشک ہے ۔ لیکن ان میں رطوبات کی زیادتی اور خشکی پیدا کرنے والے اجزا کیلشیم کی کمی ہو جائے گی تو وہ انہیں نرم کر د گی اور لین العظام( اوسیٹو مائی لیشیا) کی بیماری ہو کر ہڈیاں ٹیڑھی ہو جائیں گی ۔ اگررطوبت میں کمی ہوجائے گی تو ہڈیاں بھر بھری ہو کرٹوٹنے لگیں گی ۔ جیسا کہ بڑھاپے میں ہوتا ہے ۔ چونکہ بوڑھوں کا مزاج سرد و خشک ہے اور بچوں کا سرد و تر ۔
یہی کچھ صورت حال دوائوں اور غذائوں کے مزاج کی بھی ہے ۔ ہزاروں سال سے اس بات کا مشاہدہ کیا جاتا رہا ہے کہ جو چیز دوا یا غذا کے طور پر استعمال کرائی جا رہی ہے وہ جسم کے اپنے معمول کے مزاج پر کس طرح اثر انداز ہو کر تبدیلی پیدا کر دیتی ہے ۔ آیا وہ دوا یا غذا جسم میں موجودگرمی ، سردی ، تری یا خشکی میں کمی کر رہی ہے یا اضافہ ؟ اس پر اس چیز کے مزاج کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ یعنی کسی چیز کو اگر سرد کہا جا رہا ہے تو وہ جسم کے نارمل مزاج کے مقابلے میں سرد ہے نہ کہ نقطۂ انجماد کے مقابلے میں ۔ کھیرا ، ککڑی ، کدو ، لوکی وغیرہ اس لیے سرد و تر ہیں کہ یہ جسم میں ہضم ہو کر گرمی نہیں بڑھاتے اور رطوبت میں اضافہ کر دیتے ہیں چونکہ ان میں اس طرح کے غذائی اجزا جو حرارت کو بڑھاتے اوررطوبت میں اضافہ کر دیتے ہیں چونکہ ان میں اس طرح کے غذائی اجزا جوحرارت کو بڑھائیں ، یا تو بالکل نہیں ہیں یا بہت کم ہیں ۔انڈا ، مچھلی ، گوشت ، خشک میوہ جات ، اس لیے گرم کہلاتے ہیں کہ یہ جسم میں ہضم ہو کر گرمی اور توانائی پیدا کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان میں حرارت اب جو ٹھنڈک کیونکہ اس کا مزاج سرد ہے ۔اطباء ، مزاج کی ان ہی باریکیوں کو مد نظر رکھ کر علاج کرتے ہیں یا غذائی مشورے دیتے ہیں ۔ ان کے سامنے بیک وقت مریض کامزاج ، مرض کا مزاج ، ادویہ کا مزاج، غذاکامزاج اور موسم ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بالکل یکساں مرض میں مبتلا دو مریضوں کو ایک ہی نسخہ تجویز نہیں کیا جا سکتا ۔ دونوں کے مزاج مختلف ہوںگے یا گرم اور سرد علاقوں میں رہنے والے افراد کا علاج، الگ الگ ادویہ کی مدد سے کیا جا ئے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس طریقے پر کیے گئے علاج کے بعد پیدا ہونے والے ذیلی اثرات کم سے کم ہوتے ہیں اورمرض کی قطعی بیخ کنی ممکن ہوتی ہے ۔
مزاج کو غذائی عادات اور جغرافیائی حالات میں تبدیلی سے بدلا بھی جا سکتا ہے ۔اس طرح یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی فرد بہت جلد طیش میں آ جانے کا عادی ہے تو اس کی غذا اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلی پیدا کر کے اس کو نرم خو اور دھیمے مزاج کا انسان بنایا جا سکے ۔ اگر ایک عام آدمی ایک بار اپنے مزاج کو سمجھ لے ،اور اس کا لحاظ رکھتے ہوئے غذائی بود و باش اختیار کرے تو نہ صرف اس کی صحت بہتر ہو سکتی ہے بلکہ وہ امراض کی گرفت میں آنے سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے اور اپنی بہترین ذہنی جسمانی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک و قوم کی بہتر خدمات انجام دے سکتا ہے ۔