ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

149

اقتدار کی بدحواسیاں حکمرانوں کو کس طرح اپنا تھوکا ہوا چاٹنے پر مجبور کرتی ہیں، اس کا اندازہ آپ حالات و واقعات سے بخوبی لگاسکتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ جب میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں اقتدار سے بیدخل ہونے کے بعد اپنی جلاوطنی کے ایام میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ ’’میثاق جمہوریت‘‘ طے کیا تو ان کا اصرار تھا کہ آئندہ سیاسی عمل میں کسی صورت بھی ایم کیو ایم کو شریک نہیں کیا جائے گا کیوں کہ اس نے جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کا ایک دہشت گرد جماعت ہونا بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی میاں صاحب کی رائے سے پورا اتفاق تھا لیکن جب میاں نواز شریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے اور صدارتی انتخاب کا معرکہ برپا ہوا تو اپنے صدارتی امیدوار کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگی وفد کو نائن زیرو پر جا کر سجدئہ سہو کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم نے بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم لیگ اور اس کے قائد کو معاف کرنے میں ذرا سی تاخیر نہ کی اور میاں صاحب اپنا ہی تھوکا ہوا چاٹ کر سرخرو ہوگئے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ عمران خان کا بھی ہے، وہ بھی ایم کیو ایم کے شدید مخالف تھے، الطاف حسین کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے تھے، وہ ایم کیو ایم کا پیچھا کرتے ہوئے لندن تک گئے، وہ ایم کیو ایم اور اس کے بانی کے خلاف برطانوی عدالت میں دہشت گردی کا مقدمہ قائم کرنا چاہتے تھے لیکن شاید پزیرائی نہ ہوئی اور مایوس واپس آنا پڑا۔ پھر جب 2018ء کے انتخابات کے بعد اقتدار نے عمران خان کے دروازے پر دستک دی تو مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے انہیں کچھ اتحادیوں کی ضرورت پڑی۔ ان کی نظر فوراً ایم کیو ایم پر پڑی، اس سے مذاکرات ہوئے اور ایم کیو ایم نے عمران حکومت کا حصہ بننے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس کی بقا کا راز ہی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ ہر حکومت کا حصہ رہی ہے۔ عمران خان نے جو اصولی سیاست کرنے کے لیے میدان میں اُترے تھے، اقتدار کے لیے اپنے تھوکے ہوئے کو چاٹنے میں کوئی قباحت محسوس نہ کی۔
عمران خان نے ایم کیو ایم، جی ڈی اے، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی پر مشتمل حکومت بنا تو لی لیکن بھان متی کے اس کنبے نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران جو کارکردگی دکھائی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر طرئہ یہ کہ سارے اتحادی اب عمران خان کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ انہیں گلہ ہے کہ عمران حکومت نے ان کے مطالبات پورے نہیں کیے اور اب وہ مزید اس کے ساتھ نہیں چل سکتے، اس سلسلے میں سب سے پہلا پتھر ایم کیو ایم نے پھینکا ہے اور حکومت میں تھرتھلی مچ گئی ہے۔ خالد مقبول صدیقی کو استعفا واپس لینے اور منانے کے لیے اسد عمر کی قیادت میں ایک حکومتی وفد ان سے ملا لیکن وہ انہیں قائل کرنے میں ناکام رہا۔ دوسری طرف جی ڈی اے بھی آنکھیں دکھا رہا ہے، بلوچستان عوامی پارٹی تو ایک نہیں کئی بار حکومت سے الگ ہونے کی دھمکی دے چکی ہے، رہی چودھری برادران کی مسلم لیگ (ق) تو وہ بچ بچا کے کھیلنے کی عادی ہے یعنی
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
یہ چودھری پرویز الٰہی ہی تھے جو مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے دوران حکومت اور مولانا کے درمیان بیچ بچائو کرانے میں لگے ہوئے تھے اور مولانا کو یقین دہانیاں کروا کے دھرنا ختم کروانے میں کامیاب رہے تھے۔ ان یقین دہانیوں کی بنیاد پر حضرت مولانا کا دعویٰ تھا کہ دسمبر تک عمران حکومت ختم ہوجائے گی۔ دسمبر گزر گیا، جنوری آگیا، اب جنوری بھی اختتام پزیر ہے لیکن حضرت مولانا پُرامید ہیں کہ حکومت جلد ختم ہونے والی ہے اور شاید چودھری پرویز الٰہی بھی اس اُمید پر حکومت سے چمٹے ہوئے ہیں کہ وہ اسے آخری بائونسر کھلا کر خدا حافظ کہیں۔ گومگو کی اس فضا میں اِن ہائوس تبدیلی کی باتیں بھی ہورہی ہیں، اس تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ تحریک انصاف کو مائنس کرکے چھوٹی بڑی سب پارٹیاں یکجا ہوجائیں اور اپنا نیا لیڈر چُن لیں۔ یہ کام زیادہ دشوار نہیں ہے جو پس پردہ طاقتیں تحریک انصاف کے گرد چھوٹی پارٹیوں کو جمع کرسکتی ہیں وہ انہیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی ملا سکتی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں شراکت اقتدار پر پہلے ہی راضی ہیں، کیا ایسا ہوسکے گا؟ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمن کو کسی ضمنی انتخاب کے ذریعے قومی اسمبلی میں پہنچادیا جائے تو یہ تبدیلی آسکتی ہے ورنہ نہیں۔ دوسری طرف ایک دوست کا دعویٰ ہے کہ عمران خان اسمبلی توڑ دیں گے لیکن مائنس ہونا پسند نہیں کریں گے۔ انہوں نے قومی اسمبلی توڑنے کا حکم ٹائپ کرواکے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے۔ غالب نے سچ کہا ہے۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!