اسرائیل کی فلسطین کی دلدل سے نکلنے اور بھارت کی کشمیر کے کمبل سے جان چھڑانے کی حکمت عملی میں باریک تضادات اور دوریاں بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ اسرائیل فلسطین میں بھارت کے تجربات اور بھارت کشمیر میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور مشاورت سے استفادہ کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسرائیل اور بھارت کے لیے ان دونوں علاقوں میں جاری مزاحمت سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اور مشترکہ بنیاد کو بہت محنت اور عرق ریزی سے تشکیل وترتیب دیا گیا۔ اس کے لیے یہ فلسفہ اپنایا گیا کہ فلسطین میں اسرائیل اور کشمیر میں بھارت کو ایک ہی ذہنیت کا سامنا ہے اور وہ ذہنیت مسلمانوں کی جہادی سوچ اور غلبے کی خواہش ہے۔ اس لیے ہر دو مقامات پر پھنسے ہوئے ملکوں یعنی اسرائیل اور بھارت کو مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ نہ صرف انٹیلی جنس کے شعبے میں اشتراک کرنا چاہیے بلکہ باہمی تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہیے۔ اب مودی کشمیر کا تعلق اشوکا، کشپ رشی جیسے ہندو کرداروں اور ادوار سے جوڑ رہے ہیں تو یہ اسی طرح ہے جیسا کہ امریکی سفیر نے اسرائیل اور یہودی علاقوں کی تشریح ہزاروں سال پرانی تہذیب اور تاریخ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ جس طرح اسرائیل کو جیوش ڈیموکریسی کہا جاتا ہے بھارت اب سیکولر ڈیموکریسی کا نقاب اُتار کر ہندو ڈیموکریسی بننے کی راہ پر چل پڑا ہے۔
کشمیر سے فلسطین تک ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ کی سوچ دریافت کرنے کے بعد ہی اسرائیل اور بھارت کے درمیان دونوں تحریکوں سے نمٹنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی میں شراکت کا عمل تیز تر ہوگیا۔ اس لیے کشمیر اور فلسطین کے حالات مقدر ومستقبل کو موجودہ حالات میں الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ اس تناظر میں پانچ اگست کو بھارت نے جو قدم اُٹھایا ہے وہ وہیں رک جانے کے لیے نہیں بلکہ آگے بڑھنے کے لیے ہے اورسری نگر سے آگے کے سفر میں مظفر آباد اور گلگت بلتستان آتے ہیں۔ بھارتی حکومت اب یہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے کہ سری نگر کو بھول جائو مظفرآباد اور گلگت کی فکر کرو۔ گویا کہ وہ آزاد علاقوں کو موضوع ِ بحث بنائے ہوئے ہے۔ یوں بھارت اب مقبوضہ علاقے سے آگے پیر پنجال کی پہاڑیوں کے اِس پار اترنے کو اپنا ہدف اور خواب بنانے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے طور پر سری نگر اور جموں کو موضوع بحث اور مرکز نگاہ بنانے کے بجائے ساری توجہ مظفر آباد اور گلگت کی طرف منتقل کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ بھارت مظفر آباد اور گلگت کا منترا اس زورو شور سے پڑھنا چاہتا ہے کہ پاکستان کسی مرحلے پر تنگ آکر کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے پر رضامند ہوجائے۔ یہ محض تصورکی بات بھی نہیں بھارت میں جو سوچ تیزی سے ریاست اور فیصلہ سازی پر غلبہ حاصل کر چکی ہے اس میں یہ منصوبے عمل میں بھی ڈھل سکتے ہیں۔
پانچ اگست سے پہلے ایک موہوم امید تھی کہ بھارت کشمیر کو مزید اختیار اور شناخت دے کر عوام مطمئن کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ اس کے لیے فاروق عبداللہ کی قیادت میں کشمیر اسمبلی کی طرف سے داخلی خودمختاری کے لیے منظور کی گئی قرارداد اور محبوبہ مفتی کے سیلف رول فارمولوں کو اپنانے کی باتیں زباں زد خاص وعام تھیں۔ نتیجہ جو نکلا اس توقع کے قطعی برعکس تھا ان تمام امیدوں اور قیاس آرائیوں پر پانچ اگست کو بھارت نے ہلہ بول کر کشمیر کی بچی کھچی خودمختاری اور شناخت بری طرح پامال کر دی۔ اس پس منظر میں بھارتی حکمرانوں کی طرف سے آزادکشمیر کو مسلسل موضوع بحث بنائے جانے کو مذاق میں یا گیدڑ بھبکی کہہ کر ہوا میں اُڑایا نہیں جا سکتا۔ بھارت کے نئے فوجی سربراہ جنرل منوج مکنڈنروے نے دہلی میں اپنی پہلی میڈیا ٹاک میں ہی آزادکشمیر کو موضوع بحث بنالیا۔ جنرل منوج کا کہنا تھا کہ بھارتی پارلیمان پورے کشمیر کو اپنا حصہ قراردے چکی ہے انہیں جب بھی یہ علاقہ پاکستان سے واپس لینے کا حکم ملے گا فوج اس ضمن میں کارروائی کرے گی۔
بھارتی فوج کے نئے سربراہ نے اس گفتگو میں چین کے ساتھ تنازعے اور دو محاذوں کی جنگ اور بھارت کو درپیش فوری اور طویل المیعاد چیلنج کی بات بھی مگر ذرائع ابلاغ میں آزادکشمیر واپس لینے کی بات ہی غالب رہی۔ بھارت کے فوجی جنرل کے اس بیان سے ایک روز پہلے بیت المقدس سے اسرائیل میں امریکی سفیرڈیوڈ فرائیڈ مین کا بیان سامنے آیا جس میں امریکی سفیر نے گولان کی پہاڑیوں اور مغربی کنارے پر اسرائیل کے دعوے کی حمایت کی اور ان علاقوں پر اسرائیل کے دعوے کو تاریخ کے تناظر میں درست اور جائز قراردیا۔ فرائیڈ مین نے کسی بھی اسرائیلی باشندے سے بڑھ کر اسرائیل کی توسیع پسندی کی تاریخی توجیہات پیش کر کے اس حق کی وکالت کی ہے اور ان علاقوں کو انبیا کے ادوار کے حوالے دے کر انہیں یہودی علاقے ثابت کیا ہے۔ فرائیڈ مین کا کہنا تھا کہ میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ صدر ٹرمپ نے عقل مندی اور حوصلہ مندی دکھا کر امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر عمل کرنے سے ماضی کے امریکی صدور کتراتے رہے۔ کچھ یہی تاثر نریندر مودی کے بارے میں دیا جارہا ہے کہ ماضی کے بھارتی حکمران روز اول سے جو بڑا فیصلہ کرنے سے گریزاں اور خوف زدہ رہے بہتر سال بعد وہ مشکل فیصلہ مودی نے کر لیا۔ اب جس طرح اسرائیل فلسطینیوں کے باقی ماندہ علاقوں کوکیک کی طرح ٹکڑوں میں ہضم کرتا چلا آرہا ہے بھارت کشمیر میں پیر پنجال کے پہاڑوں سے آگے نظریں جما کر اسی حکمت عملی کو آئیڈیلائز کر رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس خواب اور خواہش کی قیمت علاقے ہی کو نہیں کرہ ٔ ارض کے لیے کتنی گراں ہوگی بھارت میں اُبھرنے والی سوچ کو اس سے شاید ہی کوئی غرض ہوکیونکہ جذبات عقل پر غالب ہوجائیں تو سود وزیاں کے پیمانے بدل جایا کرتے ہیں۔
گولان کی پہاڑیوں اور مغربی کنارے کو ہمیشہ سے مجوزہ فلسطینی ریاست کا حصہ سمجھا جا تا رہا ہے۔ امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل مستقبل کی کسی بھی فلسطینی ریاست کے امکانات کو معدوم اور راہوں کو مسدود کر رہا ہے۔ امریکا اس عمل میں اپنے بغل بچہ اور اسٹرٹیجک اتحادی کی مکمل سرپرستی کر رہا ہے۔ امریکا کا یہی رشتہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ ہے۔ سری نگر پر اپنا دعویٰ اور قبضہ مضبوط کرنے کے بعد بھارت ماضی کی ریاست جموں وکشمیر تبت کے باقی علاقوں کی طرح اسرائیل طرز پر پیش قدمی کی حماقت کر سکتا ہے۔ ایسے میں امریکا کہاں کھڑا ہوگا فلسطین کے آئینے میں اس مقام کا تعین چنداں مشکل نہیں۔