مشکل امریکی شرائط کیا تھیں

433

پاکستانی اسلامی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والی دوسری ریاست ہے۔ اس سے قبل نظریے کے نام پر قائم ہونے والی ریاست مدینہ کی ریاست تھی۔ مدینہ کی اسلامی ریاست خلفائے راشدین کا دور اور سلاطین اور بادشاہوں ادوار میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسلامی ریاست کے کسی مرکزی اور اہم وزیر نے دنیا کی کسی غیر مسلم طاقت کے حوالے سے اتنا کھلا اعتراف کیا ہو جتنا 21 ویں صدی کی طاقتور اسلامی مملکت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا ہے۔ دنیا کی سات بڑی طاقتوں میں شامل پاکستان کے وزیر خارجہ نہایت ڈھٹائی سے اعتراف کر رہے ہیں کہ ہم نے امریکا کی مشکل توقعات پوری کردیں۔ اب امریکا ہماری توقعات پوری کرے۔ پوری اسلامی تاریخ میں کوئی اسلامی ملک ایٹمی قوت نہیں بنا، پاکستان ایٹمی قوت ہونے اور دنیا کی مضبوط پیشہ ور فوج رکھنے کے باوجود بھارت جیسے ڈرپوک ملک کے مقابلے میں کمزوری کا اظہار کرتا ہے۔ وزیر خارجہ نے امریکی مشکل شرائط کا ذکر نہیں کیا۔ جدید ریاستوں اور سفارتی زبان کا یہ کمال ہے کہ قوم کو حقائق سے بے خبر رکھ کر نہایت چابکدستی سے حکومتی وزرا بڑھکیں مار کر حکومت کا وقار اپنے لوگوں کے درمیان بلند کر لیتے ہیں۔ وزیر خارجہ کو صاف بات کرنی چاہیے۔ ایف اے ٹی ایف یا بھارت کے معاملات بھی امریکا حل نہیں کرے گا۔امریکی شرائط جو بھی ہیں وہ صاف نظر آرہی ہیں کہ پاکستان چینی کیمپ میں بھی پوری طرح نہیں ہے اور امریکی کیمپ سے بھی نہیں نکل پا رہا اس کے نتیجے میں عملاً پاکستان دو کشتیوں میں سوار ہے۔ وزیر خارجہ امریکا سے افغانستان مین قیام میں توسیع کی کھلی چھپی درخواستیں کیوں کر رہے ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جو مظالم کر رہا ہے، آبادی کا تناسب تبدیل کر رہا ہے۔ شہریت قانون مسلط کر رہا ہے تو امریکا اس کا کیا کرے گا۔ اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ بھارت کو روکے، بے معنی بات ہے۔ امریکا سے پاکستان کو اگر یہ توقع ہے کہ وہ کشمیر کے معاملے میں کوئی قدم اٹھائے گا یا بھارت کو کسی ظلم سے باز رکھے گا تو یہ بھی عبث ہے۔ امریکا کو صرف اپنے مفادات سے دلچسپی ہوتی ہے یا اسرائیل کے تحفظ سے۔ اگر بھارت نے یہودیوں کے خلاف کوئی شہریت قانون بنایا ہوتا تو چند دنوں میں مودی کو جدید دور کا ہٹلر قرار دے دیا جاتا۔ بھارت پر معاشی پابندیاں عاید کر دی جاتیں لیکن یہ معاملہ کشمیر میں مسلمانوں کا ہے۔ بھارت میں شہریت قانون مسلمانوں پر اثر انداز ہو رہا ہے تو امریکا سے توقعات باندھ کر کیا کریں گے۔ اگر درپردہ امریکا سے ڈالروں کی توقع ہے تو ان ڈالروں کی اوقات ہی کیا۔ پہلے بھی بہت ڈالر لیے لیکن کم نکلے ہاں ان کے عوض پاکستان کی عزت اور وقار کا اور بیٹی عافیہ کا سودا کیا گیا۔ اب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی امریکا جا کر اس کی مشکل شرائط تسلیم کرنے کا اعتراف کر کے جو مطالبات کر رہے ہیں ان کو منوانے کے لیے مشکل یا آسان، کوئی شرط تسلیم نہیں کرنی چاہیے تھی۔ یہ تو امریکا کی ذمے داری ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہونے والے ظلم پر آواز اٹھائے۔ وہ اپنی مرضی اور اپنے مفاد کے مطابق کبھی افغان مسلمانوں کا ہمدرد بنتا ہے اور کبھی ایران اور کبھی سعودی عوام کا۔ آج کل چین دشمنی میں ایغور مسلمانوں کا درد اسے اٹھ رہا ہے۔ ایغور مسلمانوں کے لیے آواز اٹھانے کی ذمے داری تو او آئی سی، سعودی عرب، ترکی، پاکستان اور نئی او آئی سی کے رہنما مہاتیر محمد کی ہے لیکن ان سب کے بجائے امریکا ایغور مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ یہ بھی اللہ کا قانون ہے کہ وہ اپنے بندوں کے لیے کسی سے بھی کام لے لیتا ہے۔ ہمارے وزیر خارجہ امریکا کی مشکل شرائط کے بدلے اس سے ٹریول ایڈوائزری پر نظر ثانی کی درخواست کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ امریکیوں کی ضرورت زیادہ ہے پاکستان کی کم۔ اسی طرح کشمیر اور بھارت کے اندر بھارتی حکومت کے مظالم پر نظر ڈالنے اور عینک بدلنے کی بات تو انہوں نے کردی لیکن ہمارے وزیر خارجہ اور حکومت کی جانب سے عینک کب بدلی جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کا تنازعہ کشمیر یا بھارت میں مظالم نہیں ہیں بلکہ کشمیر میں استصواب اور پاکستان سے الحاق ہے۔ بھارتی مظالم کی مذمت کروانے سے کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں کو کیا فائدہ ہوگا۔ اصل بات تو بھارتی پالیسیوں میں تبدیلی ہے۔ یہ بات بھی عجیب ہے کہ وزیر خارجہ یہ فرمائیں کہ امریکا سے کہہ دیا ہے کہ اگر بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کیا تو جواب دیں گے۔ یہ بات بھارت سے کہنے کی ہے اور اصل بات تو یہ ہے کہ پاکستان کمزوری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہے اور بھارت کو ایسے پیغامات اپنے اقدامات کے ذریعے بھیجے، تب ہی بھارت کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا رویہ اور مطالبات ان کی پریس کانفرنس ایک آزاد ملک کے وزیر خارجہ کے شایان شان نہیں، انہیں اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ پاکستان نے کون سی امریکی شرائط پوری کی ہیں جو ان کے نزدیک مشکل تھیں۔ ویسے پاکستانی حکمرانوں کی تو تاریخ یہی ہے کہ اڈہ دینے سے لے کر اپنے علاقے اور مفادات امریکا پر قربان کرنا بھی ان کو مشکل نہیں لگتا، آخر یہ مشکل شرائط کیا تھیں۔