ہمارا ملک بہت اچھا اور بہت خوبصورت ہے یہاں چار موسم ہی نہیں بلکہ اللہ کی تمام نعمتیں موجود ہیں۔ یہاں اگر کچھ بہت خراب ہے تو وہ جمہوری نظام حکومت ہے۔ جس کی خرابی کی بنیادی وجہ یہاں جمہوریت پسندی کے نام پر موجود مفاد پرست سیاسی جماعتیں ہیں۔ جن جماعتوں کے اندر خود ساختہ آمریت ہو وہ بھلا کیسے جمہوری عمل کو پسند کرسکتی ہیں۔ جمہوریت پسندی کی آڑ میں مفاد پرستی کرنے والے سیاست دان دراصل مفاد پرست ہوتے ہیں۔ انہیں ملک سے دلچسپی ہے تو صرف اس لیے ہے کہ یہاں وہ اپنی مرضی کا نظام قائم کرسکتے ہیں جو کسی طور پر جمہوری نہیں ہوتا۔ وطن عزیز کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں سیاست کے نام پر ڈاکوؤں، لٹیروں اور قاتلوں کو یا ان کے حمایتیوں کو اقتدار مل جاتا ہے۔ قوم کے سامنے ملک کو لوٹنے والے سابق اور مجرم وزیراعظم میاں نواز شریف، ان کے بھائی شہباز شریف کے ساتھ کرپشن اور منی لانڈرنگ میں ملوث سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور ان کی بہن و ساتھیوں کے چہرے واضح طور موجود ہیں۔ جن کو دیکھ ہمارے سیاستانوں کی اکثریت کو پہچانا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود وہ ملکی سیاست میں بھر پور کردار ادا کررہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی جس نے گزشتہ بارہ سال کے مسلسل جمہوری دور کے دوران میں جمہور کو بھوکا ننگا کردیا، وہ سندھ کا محکمہ پولیس کس طرح ایمانداری سے چلانا چاہے گی؟ اس سے ملک اور صوبے کو بہتر انداز میں چلانے کی توقع رکھ کر بار بار اقتدار میں آنے کا موقع دینے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یا پھر انہیں لوٹ مار کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی فلسفیانہ بات نہیں کرپشن کے مقدمات میں ملوث افراد کی حکومت کیوں کر ایماندارانہ اور اصول پسندانہ نظام کو اپنے اوپر مسلط کرے گی؟ ایسے حکمرانوں کو 2008 میں اے ڈی خواجہ پسند نہیں تھے اور اب انہیں کلیم امام بھی ایک آنکھ نہیں بھا رہے۔ انسپکٹر جنرل اے ڈی خواجہ جن کرپٹ عناصر سے اصولی جنگ لڑتے ہوئے مجبوراً سندھ سے وفاق چلے گئے تھے، وہ کرپٹ سیاسی شخصیات نیب اور جیل کے چکر لگا کر دوبارہ ’’زر‘‘ کی تلاش میں مصروف ہیں۔ ان لوگوں کا شاید ایمان ہے کہ دولت اگر ہو تو عزت بھی مل جاتی ہے، انہیں بدنامی اور شہرت میں فرق کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اب دیانتدار اور اصول پسند پولیس افسر کلیم امام بھی برے لگنے لگے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے آقاوں کے اشارے پر کسی بھی طرح کلیم امام کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے کے لیے یکجا ہوگئی ہے کہ پوری کابینہ کو اس ایک نکتے پر فیصلہ کرنے کے لیے یک زبان ہوکر بیٹھنا پڑا اور کابینہ کو ایک محکمے کے سربراہ کو ہٹانے کے لیے متفق ہوکر فیصلہ کرنا پڑا۔ یہی نہیں بلکہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو اس مقصد کے لیے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات بھی کرنا پڑی۔ ماہ دسمبر میں ہونے والی اس ملاقات میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے آئی جی کلیم امام کے حکومت کے ساتھ عدم تعاون اور حکومت کی ہدایت پر عمل نہ کرنے کی بھی شکایت کی تھی۔ بعدازاں صوبائی وزیر سعید غنی نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں آئی جی سندھ پر چارج شیٹ جاری کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ صوبے میں امن و امان قائم نہیں رکھ سکے ہیں، انہوں نے ارشاد رانجھانی قتل کیس اور دعا منگی اور بسمہ کے اغوا کا بھی حوالہ دیا جو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا ہوئیں۔ صوبائی وزیر نے آئی جی پولیس کلیم امام پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے مسلسل نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے براہ راست سفارت کاروں سے ملاقاتیں کیں اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت سے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ صوبائی وزیر سعید غنی کی پریس کانفرنس سے بھی شاید پیپلز پارٹی کو ڈگڈگی کی آواز پر نچانے والے لیڈروں کی تشفی یا تسلی نہیں ہوئی تھی تب ہی تو حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضٰی وہاب کو میڈیا کے سامنے بٹھا دیا گیا جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کراچی میں موٹرسائیکل اور کار چھیننے، چوریوں اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اس حوالے سے انہوں نے سٹیزن پولیس لائیزان کمیٹی کے اعداد و شمار پیش کیے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آئی جی دفتر کے ذرائع نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، عوام کا اعتماد بحال ہوا جس کا ثبوت مقدمات درج کروانے کی شرح میں 23 فی صد اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ اسٹریٹ کرائم میں سات فی صد کمی آئی اور 54 فی صد مفرور ملزمان گرفتار کیے گئے ہیں۔ تاہم آئی جی کے ذرائع حکومت کے عدم تعاون کی شکایت کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال میں درخواست کے باوجود اسلحہ اور گاڑیوں کی خریداری نہیں کی گئی، سیف سٹی منصوبے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہوا اور نہ ہی فورنسک ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا، اسی طرح انویسٹی گیشن کمپلیکس، نئے پولیس تھانوں اور پولیس لائن کے منصوبے بھی تعطل کا شکار ہیں۔
سندھ حکومت آئی جی کے خلاف جس طرح کھل کر سامنے آئی ہے اس سے آئی جی اپوزیشن لیڈر نہیں پوری اپوزیشن پارٹی لگ رہے تھے۔ حکومتی شخصیات اس قدر جذباتی لگ رہی تھیں کہ جیسے سندھ پولیس ان کی حکومت کا ماتحت ادارہ نہیں بلکہ کوئی الگ بلکہ حکومت کا مخالف ادارہ ہے۔ یہ لوگ یہ بھی بھول چکے تھے کہ نئے اور سندھ حکومت کے ترمیم شدہ قانون کے تحت سندھ پولیس اب ان کے محکمہ داخلہ کی زیر نگرانی کام کرتا ہے اور یہ محکمہ اب وزیراعلیٰ کے پاس ہے۔ لوگ سمجھ رہیں ہوںگے کہ یہ پولیس کے سربراہ کلیم امام اور پوری حکومت کے درمیان جھگڑا سندھ اور کراچی کے امن و امان کے حوالے سے پیدا ہوا ہے جبکہ سامنے آنے والے شواہد سے یہ معلوم چلتا ہے کہ یہ جھگڑا پولیس اور حکومت کا نہیں بلکہ حکومت میں شامل اور حکومت کو باہر رہ کر کنٹرول کرنے والی شخصیات کا محکمہ پولیس کے نظم و نسق سے ہے جو پولیس کے مخالفین جمہوریت کی آڑ میں اپنے حق میں لڑ رہے ہیں۔ اس لڑائی کو بھی اے ڈی خواجہ کے ساتھ ہونے والے سندھ حکومت کے تنازع کی ہی دوسری قسط سمجھا جائے۔ پولیس کے افسران سے اس طرح کی لڑائیاں اس وقت جاری رہے گی جب تک کرپٹ اور مجرم اذہان کے سیاست دان حکومت کا حصہ یا حکومتوں کو چلانے والے رہیں گے یا اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک معروف قوانین اور اصولوں کے تحت پولیس کو آزاد اور خو مختار ادارہ بناکر اس کا حکومت سے واسطہ ختم نہ کردیا جائے۔