دو تین ہفتے قبل کی بات ہے میرے چھوٹے بھائی نے سبزی والے سے مولی کی قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اسی روپے کلو ہے پھر ٹماٹر کی قیمت معلوم کی تو اس نے بتایا کہ یہ تین سو روپے کلو ہے، انہوں نے اپنی بائیک اٹھائی اور سبزی منڈی چلے گئے وہاں مولی کی قیمت معلوم کی تو وہ پندرہ روپے کلو اور اچھے والے ٹماٹر دوسو روپے کلو جب کہ دوسرے درجے کے ٹماٹر جو کچھ لال اور کچھ ہرے تھے ڈیڑھ سو روپے کلو تھے، اب وہاں چیزیں کلو ڈیڑھ کلو تو ملتی نہیں اس لیے زیاد مقدار میں لینا پڑا لیکن آپ یہ دیکھیں کے فرق کتنا ہے اور اس پر حکومت کی طرف سے کوئی کنٹرول نہیں جس کی جو مرضی ہو اپنی طرف سے دام طے کرلیتا ہے، عام طور سے سبزی والے ٹھیلوں پر سبزی بیچتے ہیں انہیں کوئی کرایہ یا بجلی کا خرچ بھی برداشت نہیں کرنا پڑتا اس کے باوجود وہ سو فی صد سے چار سو فی صد تک زیادہ قیمتیں وصول کرتے ہیں، آپ کسی بھی دکاندار سے کہیں کہ بھائی اتنی زیادہ قیمتیں کیوں وصول کررہے ہو تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ کیا کریں اوپر سے مہنگائی ہو رہی ہے، پھر جب ہم دکاندار سے سبزی منڈی کی قیمتیں بتا کر زیادہ پیسہ لینے کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ دکان کا کرایہ ہے بجلی کا بل ہے ملازمین کی تنخواہیں ہیں پھر ہم جو سامان ایک تول میں لاتے ہمیں یہاں اسے بیس پچیس تول میں فروخت کرنا پڑتا ہے، بہر حال اس مسئلے کو حکومت ہی کو حل کرنا ہو گا کہ ایک دکاندار کو کتنے فی صد منافع رکھ کر چیزوں کو بیچنا ہوگا اور پھر اس پر چیک رکھا جائے اگر اس طرح کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو حقیقی مہنگائی کے ساتھ جو درمیان کے لوگ مصنوعی مہنگائی کررہے ہیں اس سے حکومت کے خلاف عوام میں جو مخالفت بڑھ رہی ہے وہ کسی بھی وقت نفرت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
رات ہی ایک چینل پر یہ ٹکر چل رہا تھا کہ آٹا 64روپے سے 70روپے کلو ہو گیا، پچھلے ڈیڑھ سال سے جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے، آٹا جیسی بنیادی ضرورت کی چیز میں 70فی صد اضافہ ہو چکا ہے پہلے دس کلو آٹے کی بوری 450روپے کی ملتی تھی اور اب وہ 700روپے کی
ہو گئی۔ اب قیمتوں میں استحکام نہیں رہا ہمیں اچھی طرح یاد ہے ہمارے بچپن میں جب آٹا شکر سوجی میدہ کی راشن بندی تھی راشن شاپ سے آٹا اس وقت پونے سات آنے سیر ملتا تھا اس وقت روپے میں سولہ آنے اور چونسٹھ پیسے ہوتے تھے۔ اور یہ پونے سات آنے سیر کی قیمت برسوں قائم رہی ہے یہی وجہ تھی کسی بھی بنیادی اشیاء میںکسی چیز کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا ایک شور مچ جاتا تھا اور اسی وجہ سے جب شکر کی قیمت میں ایک آنے فی سیر اضافہ ہوا تو ایوب خان کے خلاف ایک تحریک اٹھ کھڑی ہوئی شکر کی قیمت میں اضافہ تو ایک بہانہ تھا، ایوبی آمریت کے خلاف عوام میں نفرت تو پہلے سے چلی آرہی تھی ان کی وجوہات بہت ساری تھیں جن میں خاص خاص۔ کراچی سے دارالحکومت کی اسلام آباد تبدیلی، 1962 کا آئین، فاطمہ جناح کی دھاندلی سے شکست، (جس سے مشرقی پاکستان میں مایوسی کی ایک لہر دوڑ گئی)، ایک غلط حکمت عملی کے تحت بھارت سے جنگ، اعلان تاشقند، گو کہ ایوب کے دس سالہ دور حکومت میں ملک میں اقتصادی ترقی ہوئی، منگلا اور تربیلا ڈیم بھی اسی زمانے میں بنائے گئے، قیمتوں میں استحکام رہا، ان کی ذات سے کوئی مالیاتی اسکینڈل سامنے نہیں آیا لیکن اس کے آمرانہ اسٹائل اور غیر جمہوری رویوں کی وجہ عوام میں مخالفت شدید ہوتی چلی گئی۔
کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ اور دیگر چیزوں میں اس طرح سے متعلقہ لوگ اضافہ کرتے ہیں جیسے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے اگر چینی کی قیمت بڑھتی ہے تو چائے والے یا تو چائے کی قیمت بڑھا دیتے ہیں یا اپنی پیالیاں چھوٹی کردیتے ہیں مٹھائی والے اپنی مرضی سے دام بڑھاتے رہتے ہیں۔ کراچی کی 90فی صد بسیں، موٹر رکشا، ٹیکسیاں cng، پر ہیں لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ اپنے کرائے بڑھا دیتے ہیں ایسا لگتا ہے ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ملک کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ سواری کے لیے موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں، جو خراب اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے باعث اکثر پنکچر ہوجاتی ہیں، دو سال پہلے تک پنکچر کے ریٹ یہ تھے کہ 40یا کہیں 50روپے کا پہلا پنکچر اور بقیہ پنکچروں کے پندرہ یا بیس روپے فی پنکچر کے حساب سے وصول کرتے تھے، اب پہلا پنکچر 70اور کہیں 80روپے میں، اور بقیہ پنکچروں کے 40سے 50روپے فی پنکچر کے حساب سے لیے جاتے ہیں اس کام میں میٹریل تو برائے نام ہی لگتا ہے۔ان کی ایمانداری کا یہ عالم ہے انتہائی پھرتی اور دیانتدارانہ چالاکی سے ایک کے چار پنکچر نکال دیتے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے ایک پروگرام دکھایا تھا کہ ایک بائیک والے نے اپنی نئی ٹیوب کی ہوا نکال کہ اسے پنکچر والے کے پاس لے گیا اور کہا کہ اس میں پنکچر لگادو میں ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں وہ جب واپس آیا تو اس نے بتایا کہ اس میں دو پنکچر لگے ہیں اس طرح وہ چار پانچ پنکچر والوں کے پاس ان کے کام کی دیانتداری چیک کرنے اور ناظرین کو دکھانے کے لیے گیا پانچ میں سے صرف ایک پنکچر والے نے اسے بتایا کہ آپ کی گاڑی پنکچر نہیں تھی ہوا نکلی ہوئی تھی وہ میں نے بھر دی بقیہ کسی نے ایک اور کسی نے چار پنکچر تک اس میں لگا دیے تھے بائیک والے نے اس پنکچر والے کو پورا واقعہ سنایا اور کہا کہ آپ واحد فرد ہیں جنہوں نے صحیح بتایا اس نے کہا کہ جو لوگ یہ طے کرلیں کہ مجھے خود اور اپنے بچوں کو حلال کھلانا ہے پھر وہ یہ کام نہیں کرتے۔
یہ میں نے ایک مثال دی ہے ہمارے ہر شعبے میں اوپر سے نیچے تک بے ایمانی کا جال بچھا ہوا ہے اور اس کی وجہ مہنگائی نہیں بلکہ لالچ اور ہوس زر ہے مہنگائی تو ایک بہانہ ہے، ایسا کیوں ہورہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ چاہے وہ تحریک انصاف کا ہو، ن لیگ کا ہو، پی پی پی کا ہو ان کی دنیا ہی الگ ہے یہ سب لوگ سرمایہ دار اور دولت مند ہوتے ہیں جو موٹر سائیکل بنانے کی فیکٹری تو بنا لیں گے لیکن بائیک چلاتے نہیں ہیں جنہیں صبح اٹھ کر ڈائنگ ٹیبل پر سجا ہوا ناشتہ مل جائے ہر سال نئے ماڈل کی کار لیتا ہے تو اسے غریبوں کے دکھ درد کیا احساس ہوگا وہ غریبوں کی بات تو کرتا ہے لیکن اپنی سیاسی ضرورت کے تحت۔ شکر کے کارخانے تمام سیاسی لوگوں کے ہیں اور وہ تینو ں سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہیں وہ جب چاہتے ہیں شکر کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں ایک نمائشی سا شور مچتا ہے پھر خاموشی ہو جاتی ہے برسر اقتدار طبقے کے لوگوں کا کوئی کاروبار نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکیں گے، یہی وجہ ہے کہ جب خلیفہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سیدنا ابوبکرؓ کپڑا بیچنے کے لیے نکلے تو سیدنا عمرؓ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ حکمرانوں کو کاروبار نہیں کرنا چاہیے آپ اپنی ضرورت کے لیے بیت المال سے اپنا وظیفہ طے کرلیں۔