شاہ رخ

346

مولانا سجاد اپنے دفتر میں تشریف فرما تھے۔وہ ایک دینی مدرسے کے مہتمم ہیں۔ مدرسے میں ڈھائی تین سو طالبعلم پڑھتے ہیں۔ اکثر بچے غریب اور مدرسے میں ہی رہائش پزیر ہیں۔ ان کی رہائش اور کھانے کے اخراجات مدرسہ ہی اٹھاتا تھا جو لوگوں کے چندے اور فنڈز سے پورے ہوتے تھے۔ مدرسے میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مدرسے میں تعلیم کا معیاراعلی اور متاثرکن تھا لہٰذا اہل خیر کھل کر تعاون کرتے تھے۔
مولانا سجاد نہ جانے کن سوچوں میں محو تھے کہ ایک طالبعلم نے آکر کہا ’’استادجی ایک عورت آئی ہے، بچے کے داخلے کے لیے‘‘۔ بچوں کے داخلے کے لیے عموماً مرد آتے تھے۔ عورتیں کبھی کبھار قرآن خوانی کے لیے طالبعلموں کو گھربھیجنے کی درخواست کرنے آتی تھیں۔ مولانا سجاد نے گردن اٹھائے بغیر طالبعلم سے کہا ’’بلاؤ۔‘‘ ذرا دیر بعد ہی ایک عورت کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی۔ وہ سیاہ برقع پہنے ہوئے تھی۔ چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔اس کے ہمراہ ایک چھ سات سال کا بچہ تھا۔ چلبلا بے چین اور شرارتی۔
مولانا سجاد نے عورت کو اندر آنے کے لیے نہیں کہا ’’جی بی بی بولیں، کیا کام ہے‘‘۔ ’’مولوی صاحب اسے مدرسے میں داخل کرانا ہے۔‘‘ عورت نے بچے کا ہاتھ پکڑکر اسے کمرے کے اندر کرتے ہوئے کہا۔ مولانا سجاد نے داخلہ فارم نکالا اور بچے سے پوچھا ’’کیا نام ہے بیٹا آپ کا؟‘‘ ان کا سوال پورا نہیں ہوا تھا کہ بچے نے جواب دیا۔ ’’شاہ رخ۔‘‘ ’’باپ کا نام؟‘‘ مولانا سجاد نے اگلا سوال کیا۔ اس سوال پر بچہ مولانا سجاد کو اس طرح دیکھنے لگا جیسے سوال اس کی سمجھ میں نہ آیا ہو۔ ’’جی بیٹا بولیں آپ کے ابو کا کیا نام ہے؟‘‘۔ بچہ اس مرتبہ بھی ان کی شکل دیکھتا رہا۔ مولانا عورت سے مخاطب ہوئے ’’جی بی بی آپ بتائیں بچے کے باپ کا نام؟‘‘ عورت فوری طور پر جواب نہیں دے پارہی تھی۔ ’’جی کیا نام ہے آپ کے۔۔۔‘‘ اس مرتبہ جملہ پورا ہونے سے پہلے عورت بول پڑی ’’سلمان خان‘‘۔
فارم پر نام درج کرتے ہوئے مولانا نے دریافت کیا ’’آپ پٹھان ہیں؟‘‘ ’’نہیں جی نہیں! خالی سلمان لکھ لیں،سلمان خان تو انڈیا کا اداکار ہے۔‘‘ عورت کی باتوں سے مولانا سجاد حیرت میں پڑگئے۔ بولے ’’سلمان صاحب کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی کی ضرورت ہوگی کل تک بھجوا دیجیے گا۔‘‘۔ ’’اب جی میں شناختی کارڈ کہاں سے لاؤں؟ اس کی پیدائش کے چھ ماہ بعد ہی اس کے ابو کا انتقال ہوگیا تھا‘‘۔ مولانا سجاد عورت کی بات سے مطمئن نہیں ہوئے۔اس کے باوجود انھوں نے بچے کو داخلہ دے دیا۔
شارخ بہت شرارتی بچہ تھا۔ مدرسے کے ماحول کے لیے بالکل ناموزوں۔ دوسرے بچے اس کی شرارتوں اور اساتذہ بدتمیزیوں سے تنگ تھے۔ مولانا سجاد نے اساتذہ کو بچوں کے مارنے سے منع کررکھا تھا۔بچوں کی مار پیٹ اور دینی مدارس کو جس طرح ہم معنی بنادیا گیا تھا،مولانا سجاد اپنے مدرسے کو اس پروپیگنڈے سے بچانا چا ہتے تھے۔ دین کی برکت سے ویسے بھی اساتذہ اور طالبعلموں کے درمیان محبت، شفقت اور ادب واحترام کا رشتہ تھا۔ لیکن شاہ رخ اساتذہ کو پٹائی کرنے پر مجبور کردیا کرتا تھا۔ مولانا سجادتک شاہ رخ کی بدتمیزیوں کی خبریں پہنچتی تو وہ بھی اس سے سختی سے پیش آتے۔ بعض اوقات پٹائی بھی کردیا کرتے تھے۔ لیکن کبھی بھی شاہ رخ کی والدہ نے اس حوالے سے کوئی گلہ یا شکایت نہیں کی۔ دوچار ہفتوں میں وہ جب بھی شاہ رخ سے ملنے آتی اور مولانا اسے شاہ رخ کی شرارتوں سے آگاہ کرتے تو وہ بڑی لاتعلقی سے کہتی ’’خوب پٹائی کریں جی اس کی۔ اس حرامی کو انسان کا بچہ بنادیں‘‘۔ لیکن شاہ رخ کی ایک خوبی اسکی تمام خامیوں اور شرارتوں پر حاوی تھی۔ وہ ذہین بہت تھا۔ پڑھنے لکھنے میں انتہائی تیز۔ پہلے سال ہی اس کا نتیجہ آیا تو اس کی پہلی پوزیشن تھی۔
نتیجہ نکلنے کے آٹھ دس دن بعدکی بات ہے کسی طالبعلم نے مولانا سجاد سے کہا ’’استاد جی شاہ رخ کی امی آئی ہے‘۔‘ شاہ رخ کو پورا مدرسہ جان گیا تھا۔ مولانا سجاد کے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے۔ اس وقت انہیں شاہ رخ کی امی کا آنا کچھ ناگوار سا لگا۔ ’’انہیں بولو انتظار کریں‘‘۔ کافی دیر بعد مہمان رخصت ہوئے تب تک مولانا شاہ رخ کی امی کو بھول چکے تھے۔ طالب علم نے آکر یاد دہانی کرائی تو وہ کچھ پشیمان سے ہوگئے جلدی سے بولے ’’ہاں ہاں بلاؤ‘‘۔
شاہ رخ کی امی حسب سابق دروازے پر آکر کھڑی ہوگئی۔ ’’جی بی بی بولیں کیا کام ہے‘‘ مولانا سجاد نے معذرت آمیز نرمی سے دریافت کیا۔ ’’وہ جی آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا آپ نے شاہ رخ کا اتنا خیال رکھا۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ میں مدرسے میں دینے کے لیے کچھ پیسے لائی تھی‘‘۔ شاہ رخ کی امی آج بہت دکھی دکھی روئی روئی سی لگ رہی تھی۔ پیسے دینے کے لیے وہ کمرے کے اندر آگئی۔ ’’کتنے پیسے ہیں‘‘ مولانا نے دریافت کیا۔ ’’جی دولاکھ روپے‘‘۔ اتنی بڑی رقم پر مولانا سجاد بھی سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ انہوں نے طالبعلم کو اشارہ کیا طالبعلم نے رقم لے کر ان کے حوالے کردی۔
رسید کاٹتے ہوئے مولانا بولے ’’دیکھیں بی بی یہ دینی مدرسہ ہے پوچھنا پڑتا ہے ذریعہ آمدنی کیا ہے؟‘‘ شاہ رخ کی امی نے جیسے ان کی بات سنی ہی نہیں۔ وہ گلوگیر آواز میںبولی ’’مولانا صاحب دعا کیجیے اللہ تعالیٰ تمام گناہگاروں کی بخشش کردے اور ساتھ ہی اپنی اس گناہگاربندی کی بھی۔ بہت گناہگار ہوں۔ میرے لیے دعا کیجیے گا۔ اس گناہگار کا یہ ہدیہ قبول کیجیے۔ دعا کیجیے میری بخشش کا ذریعہ بن جائے‘‘۔ یہ سب کچھ کہتے ہوئے شاہ رخ کی امی کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ وہ روتے ہوئے اٹھی اور چلی گئی۔
پانچ چھ ماہ بعد شاہ رخ کی امی پھر آئی۔اس مرتبہ اس نے چہرہ ڈھا نکاہوا نہیں تھا۔ پہلی مرتبہ طالب علموں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ وہ مدرسہ میں دینے کے لیے اس مرتبہ بھی دو لاکھ روپے لائی تھی۔ مولانا نے اس بار پھر پوچھا ’’آپ کے شوہر نہیں ہیں۔ آپ کیا کرتی ہیں، مطلب ہے یہ رقم‘‘۔۔۔ شاہ رخ کی امی بولی ’’جی کچھ نہیں،بس لوگوں کی خدمت کرتی ہوں‘‘۔ اس کے لہجے میں نجانے کیابات تھی۔ مولانا سجاد کوئی معنی نہ پہناسکے۔ ان کا تقوی اور پرہیزگاری عورت کا چہرہ دیکھنے میں مانع تھا کہ وہ کچھ قیاس کرسکتے۔ انہوں نے آہستگی سے پوچھا ’’آپ خدمت خلق کرتی ہیں۔ کس شعبے سے وابستہ ہیں؟‘‘ ’’جی میں خدمت خلق کے سب سے بڑے شعبے سے وابستہ ہوں‘‘۔اس مرتبہ بھی شاہ رخ کی امی کی آواز میں عجیب سی کاٹ تھی۔اس مرتبہ بھی مولانا سجاد جسے معنی پہنانے کی کوشش کرتے رہے۔
کچھ دن بعد مولانا عارف صرف و نحو کے استاد،مولانا سجاد کے پاس آئے۔ وہ شاہ رخ کی شکایت کررہے تھے۔ ’’جی! آج شاہ رخ گانا گارہا تھا۔ اللہ معاف کرے بڑے بیہودہ سے بول تھے۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے ڈانٹاتو بولا ’’استاد جی ہمارے یہاں تو سب گانا گاتے ہیں۔ شام کو لوگ دور دور سے ہمارے یہاں گانا سننے آتے ہیں۔ کبھی کبھی امی گانا سنانے باہر بھی چلی جاتی ہیں‘‘۔
مولانا سجاد نے گہری خاموشی سے مولانا عارف کی بات سنی۔ ان کی گردن مزید جھک گئی تھی۔ انہوںنے مولانا عارف سے کہا ’’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اس بات کا ذکر کسی سے مت کیجیے گا۔ شاہ رخ کو بھی سختی سے منع کردیں کہ اس بات کا ذکر نہ کرے‘‘۔ ان کی آواز میں گہرا رنج تھا۔ جیسے وہ سینے میں کہیں اندر رو رہے ہوں۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوںنے کہا ’’اور دیکھیے تمام اساتذہ سے کہیں شاہ رخ کا بہت خیال رکھیں خصوصا اس کے کردار اور اخلاق کا‘‘۔