ذاکر نائیک کی استقامت کو سلام

384

بھارت کے معروف مسلمان راہنما ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ایک وڈیو پیغام میں انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت نے کشمیر پر پانچ اگست کے فیصلے کی حمایت کے بدلے منی لانڈرنگ اور دوسرے مقدمات ختم کرنے کی پیشکش کی تھی مگر انہوں نے یہ پیشکش مسترد کردی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر دستوری ہے۔ ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ایک بھارتی نمائندہ ان کے پاس نریندر مودی اور امیت شاہ کا پیغام لے کر آئے تھے۔ جس کے مطابق پانچ اگست کے فیصلے کی حمایت کی صورت میں نہ صرف ان پر قائم مقدمات ختم ہونا تھے بلکہ ان کی بھارت واپسی کو یقینی بنانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ اس نمائندے نے کہا تھا کہ وہ بھارتی حکومت اور ذاکر نائیک کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنا چاہتے ہیں۔ ذاکر نائیک کے انکار کے بعد کہا گیا کہ بھارتی حکومت ان کے روابط کو دیگر مسلمان ممالک سے تعلقات بہتر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جب اس کا جواب بھی نفی میں ملا تو پھر صرف یہ فرمائش کی گئی کہ ذاکر نائیک مودی حکومت پر تنقید نہ کریں۔ ذاکرنائیک نے وڈیو پیغام میں کہا ہے کہ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ بھارت کے جو مسلمان راہنما شہریت بل اور رجسٹریشن کی حمایت میں بیان دے رہے ہیں وہ دبائو میں ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک مسلمان دنیا کا ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ انہیں احمد دیدات ؒ کے بعد تقابل ادیان اور اسلام کا ایک اہم مبلغ اور ماہر مانا جاتا ہے۔ ان کے لیکچرز میں ہر مذہب اور نسل کے ہزاروں مرد وخواتین شرکت کرتے ہیں۔ غیر مسلم اپنے تجسس کی پیاس بجھانے کے لیے ان کی محفلوں کا رخ کرتے ہیں اور وہ اسلام کی حقانیت کے قائل ہو کر ہی لوٹتے ہیں۔ اپنی دعوتی اور تبلیغی سرگرمیوں کی تشہیر کے لیے انہوںنے ’’پیس ٹی وی‘‘ کے نام سے ایک سیٹلائٹ چینل بھی شروع کر رکھا ہے جسے دنیا بھر میں بہت ذوق وشوق سے دیکھا جاتا ہے۔ ذاکر نائیک کے نام اور کام سے بھارت کی فاشسٹ حکومت کی مخاصمت کی بہت سی وجوہات میں یہ چند ایک ہیں۔ مودی حکومت نے انہیں مختلف حوالوں اور طریقوں سے تنگ کرنا شروع کیا۔ ہندو انتہا پسندوں کے لیے ذاکر نائیک کا اصل جرم یہ ہے کہ بھارت میں ہندو اور حقوق سے محروم اور سماجی اونچ نیچ کا شکار طبقات ان کی دعوت سے متاثر ہو کر اسلام کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ یہ وہ بات تھی جو ہندو انتہا پسندوں گوارا نہیں تھی اور اسی دبائو کی وجہ سے ذاکر نائیک بھارت سے ملائیشیا منتقل ہوئے۔ بھارت نے ملائیشیا سے ذاکر نائیک کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا مگر ملائیشین حکومت نے اس مطالبے کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ بھارت اور ملائیشیا کے درمیان تعلقات کی خرابی کی ایک وجہ ذاکر نائیک بھی ہیں۔
ذاکر نائیک کے اس انکشاف سے اندازہ ہورہا ہے کہ مودی حکومت فاشسٹ راستوں پر سفر تو کر رہی ہے مگر اسے مسلمان دنیا سے ردعمل اور مسلمان معاشروں میں بدنامی کا خوف بھی دامن گیر ہے۔ اسی خوف نے انہیں مودی حکومت کو ذاکر نائیک کے منت ترلوں پر مجبور کیا۔ ذاکر نائیک نے ایک جرأت مند اور اصول پسند راہنما کے طور پر مودی حکومت کی کشمیر دشمن پالیسیوں کا حصہ بننے سے انکار کرکے استقامت اور عزیمت کا راستہ چنا ہے۔ اگر بھارت کے دوسرے مسلمان راہنما اور مسلمان دنیا کے حکمران بھی اسی مومنانہ اور مجاہدانہ صفت کا مظاہرہ کرکے بھارت کا ہاتھ روکتے یاکم ازکم اس کے جرائم میں شریک نہ ہوتے تو مودی حکومت آج اس قدر خود سر نہ ہوتی۔ مودی شیر ہرگز نہیں مسلمان دنیا کی گیدڑانہ طبیعت نے اسے شیر بنادیا ہے۔ یہ رویہ گجرات کے فسادات کے زمانے سے جاری ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام بعد اگر نریندر مودی کو نشان زدہ کر دیا گیا ہوتا تو یہ شخص دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ ہوتا مگر صد افسوس کہ اسلام کے مراکز میں حکمرانوں نے مودی کے گلے میں تمغے ڈال کر اس کے ماضی کے سیاہ کرتوتوں کو قبولیت کی سند عطا کی۔ ان تمغوں اور ایوارڈز نے مودی کے ماضی کے سیاہ کردار کو کلین چٹ دی۔ کشمیر کے بعد اس کا حوصلہ اس قدر بڑھا کہ اس نے شہریت قانون کے ذریعے تیس کروڑ بھارتی مسلمانوں کے گریبان پر بھی ہاتھ ڈالا۔ اب جب بھارت کے مسلمانوں کے گریبان تک مودی کا ہاتھ اور ان کے دامن تک ہندوتوا کے شعلے پہنچ گئے تو مسلمانوں کی نئی نسل سراپا انقلاب بن کر سڑکوں پر نکل آئی۔ حد تو یہ ہے کہ ابھی بھی بھارت کے کچھ مسلمان لیڈر مودی سے اچھی توقعات باندھے ہوئے ہیں اور مسلمان حکمران تو منہ میں گھنگنیاں ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کے مودی سے یارانے اور دوستانے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ایسے میں ذاکر نائیک کا انکشاف جہاں مودی حکومت کی حواس باختگی اور خوف زدگی کو ظاہر کر رہا ہے وہیں یہ مسلمان لیڈروں اور حکمرانوں کے لیے قابل تقلید مثال ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں، عوام اور پالیسی سازوں نے اپنی حرکتوں سے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کر قائد اعظم کی فلاسفی کو ہر ممکن طریقے سے غلط ثابت کرنے کی کوشش تھی مگر مودی اور دوسرے بھارتی انتہا پسندوں نے مولانا آزاد کی سوچ کو غلط اور قائد اعظم کی سوچ کو دورباہ صحیح اور وقت کی آواز ثابت کیا ہے۔