روٹی حکومت کھا جاتی ہے

380

شاعر نے کہا تھا:
یہ اشارہ ہے آفات نا گہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
ایم کیو ایم (مرحوم ) کے مقبول صدیقی کے کوچ کرجانے کو جو لوگ خان صاحب کی حکومت کے لیے آفت ناگہانی سمجھ رہے ہیں، خیال کررہے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت گئی، درست سمجھ رہے ہیں۔ تاہم فوری طور پر اس کا امکان نہیں۔ ایم کیو ایم کی روایت کے مطابق خالد مقبول واپس آسکتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ خان صاحب کی حکومت گرنے کا آغاز ہو چکا۔ طوفان کسی اور سمت جنم لے رہا ہے۔
حکومتیں گرنے میں وقت لیتی ہیں۔ حکومت ریت کا گھروندہ نہیں ہوتی۔ گھروندہ گھر کی صورت ہوتا ہے۔ وہ گھر جہاں لوگ رہتے ہیں۔ جنہیں چھت چاہیے، چار دیواری چاہیے اور روٹی چاہیے۔ لوگوں کو چودھویں رات میں چاند چہرے نظر آتے ہیں۔ غریبوں کو چاند میں روٹی نظر آتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی بھی چاند میں روٹیاں دیکھتے تھے۔
ان روٹیوں کے نور سے سب دل ہیں بُور بُور
آٹا نہیں ہے چھلنی سے چھن چھن گرے ہے نور
پیڑا ہر ایک اس کا ہے برفی وموتی چور
ہرگز کسی طرح نہ بجھے پیٹ کا تنور
اس آگ کو مگر یہ بجھاتی ہیں روٹیاں
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر وماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کو
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیردے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
وہ نبض شناس جنہوں نے ملک کو بچوں کا کھیل بنا کر رکھ دیا ہے پر امید تھے کہ خان صاحب کو موقع دیا جائے گا تو ڈالروں کی برکھا ٹوٹ کر برسے گی، بیرون ملک مقیم پاکستانی خان صاحب کی محبت میں زرمبادلہ کے پہاڑ کھڑے کردیں گے، دنیا بھر کے سرمایہ دار خان صاحب کی اسمارٹ نیس سے ایسے متاثر ہوں گے کہ سرمایہ کاری میں مسابقت کا وہ ماحول پیدا کریں گے کہ رہے نام اللہ کا۔ پھر سب کا خیال تھا کہ خان صاحب نے معاشی نابغوں کی ایسی ٹیم تیار کررکھی ہے جن کے معاشی ویژن سے پاکستان کی معیشت دوڑنے لگے گی۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ خان صاحب کی حکومت نے ابتدا ہی میں بد نظمی کے وہ کارنامے انجام دیے کہ سب حیران رہ گئے۔ یا خدایا! بائیس سال کی جدوجہد اور یہ تیاری!!! خان صاحب کی حکومت کے آغاز سے لے کر آج تک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں افراتفری کی حکمرانی ہے۔ پاکستان میں آج معیشت ڈونر اداروں پر انحصار کا نام ہے۔ حکومت دوسری ریاستوں سے بھیک مانگ رہی ہو یا عالمی مالیاتی اداروں سے، ہمارے وقار اور خود مختاری کا کہیں وجود نہیں ہے۔ جب کہ عالمی اداروں کی رپورٹیں یہ بتارہی ہیں کہ اگلے دوتین برس بھی پاکستانی معیشت کے راہ پر آنے کے امکان نہیں۔
اس کے باوجود حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت بہتری کی طرف مائل ہے۔ معیشت بہتری کی طرف مائل ہے یا تنزلی کی طرف۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹیں کیا کہہ رہی ہیں، عالمی اداروں کی پیش گوئیاں کیا ہیں؟ ہمیں اس کا پتا نہیں۔ ہمیں صرف یہ بتائو کہ خان صاحب کی حکومت میں آٹا سستا ہوا ہے یا مہنگا۔ روٹی کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے۔ غریب کے لیے روٹی کا حصول آسان ہوا ہے یا مشکل بنادیا گیا ہے۔
بڑے فخر سے ذکر کیا جاتا ہے کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا اور بکھرنا پاکستان کی عسکری مہارت کا نتیجہ تھا۔ ہماری عسکری مہارت کے سبب ایک اور ملک بنا کسی جنگ کے ٹوٹ اور بکھر رہا ہے۔ کہا جاتا ہے ماسکو کی سڑکوں پر روبل کاغذ کے ٹکڑوں کی طرح اڑتے پھرتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی روپیہ کا غذ کے ٹکڑے جیسی وقعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ سو روپے تو کجا ہزار کے نوٹ کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ اس پر نوکریاں ختم ہورہی ہیں، لوگ ملازمتوں سے نکالے جارہے ہیں۔ پیداور گھٹ رہی ہے۔ مارکیٹ سکڑ رہی ہے۔ فیکٹریوں اور مل مالکان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ملازموں اور مزدوروں کو نوکریوں پر برقرار رکھ سکیں۔ مزدوروں کے غول کے غول ملوں اور فیکٹریوں سے نکالے جارہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ملوں اور فیکٹریوں پر تالے پڑ چکے ہیں، جو چل رہی ہیں کچھ پتا نہیں ان پر بھی کب تالے پڑ جائیں۔
آئی ایم ایف اور عالمی اداروں نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جو شرائط رکھی ہیں خان صاحب ان پر پوری تندہی سے عمل کررہے ہیں۔ کرنا بھی چاہیے۔ وہ اسی میں اپنی حکومت کی بقا سمجھتے ہیں۔ عسکری ادارے بھی ان ادائیگیوں میں خان صاحب کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ اس بھائی چارے اور ادائیگیوں کی فکر میں کسی کو مہنگائی کا وہ طوفان نظر نہیں آرہا ہے جو غریبوں کی کمر توڑ رہا ہے۔ ان کے جسم اور روح کے تعلق کو توڑ رہا ہے۔ منتظر رہیے اس ہجوم کے، اس مشتعل ہجوم کے، بھوکے عوام کے غولوں کے، جو سب کچھ تہس نہس کردیں گے۔ خان صاحب کے حمایت کنندہ ٹینک بھی ان بھوکوں ننگوں کے آگے بے بسی کی تصویر بنے نظر آئیں گے۔ خاں صاحب کی حکومت مقبول صدیقی کے استعفے کی وجہ سے نہیں روٹی کی مہنگائی اور عدم دستیابی کی وجہ سے جائے گی۔
ہماری سیاسی اور فوجی قیادت امریکا کی طرف دیکھ رہی ہے، عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اسے دنیا کے فیصلہ سازوں کی فکر ہے۔ اپنی عالمی ساکھ کی فکر ہے۔ اگر فکر نہیں ہے تو اہل کشمیر کی فکر نہیں جن کے لیے 200دن ہونے کو آرہے ہیں زندگی ٹارچر کیمپ بنادی گئی ہے۔ ایک سلاٹر ہائوس، نجانے کب کس کی باری آجائے۔ پاکستانی رائے عامہ کی فکر نہیں جس میں غصہ اور اشتعال بڑھتا جارہا ہے۔ اس کٹھ پتلی حکومت نے جنہیں دیوار سے لگادیا ہے۔ جو ثابت کررہی ہے کہ وہ عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہے۔ ایک عالمی ایجنڈے کے تحت برسراقتدار لائی گئی ہے۔ اگر ایک چھوٹی سی چنگاری نے پورے بھارت میں آگ لگادی ہے تو جلد ہی پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ اگر بھارت کے مودی کی ہٹ دھرمی کے مقابل آج پورا بھارت ہے تو جلد ہی پاکستانی مودی کے مقابل بھی عوام کے لشکر اور غول ہوں گے۔ یہ غول جب باہر نکلتے ہیں تو پھر کسی کی نہیں سنتے۔ حکمرانوں کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیتے۔ عوام ان حکمرانوں کے پیٹ پھاڑ دیتے ہیں جنہوں نے ان سے روٹی چھینی تھی۔ جن طوفانوں کے پیچھے روٹی ہوتی ہے وہ خود پسند حکمرانوں پر مقدمے نہیں چلاتے، انہیں جیل میں نہیں ڈالتے، سڑکوں پر گھسیٹ کر مارتے ہیں۔ ان عوامی عدالتوں کو نہ توڑا جاسکتا ہے نہ معطل کیا جاسکتا ہے۔