سی پیک پر امریکا کے اعتراضات

346

امریکا نے پاکستان میں سی پیک کے تحت جاری پروجیکٹوں کو مسلسل تنقید کا ہدف بنایا ہوا ہے ۔ امریکی حکام نے پہلے کہا کہ سی پیک کے تحت جاری پروجیکٹوں میں امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کی جانے والی کمپنیوں کو کنٹریکٹ دیے گئے ۔ پھر کہا گیا کہ پاکستان پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ سی پیک کی وجہ سے ہے ۔ سی پیک پاکستان کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ ، یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف اور صرف پاکستانی عوام کو ہے ۔ امریکا کا یہ عمومی رویہ ہے کہ وہ پاکستان کے ہر معاملے میں نہ صرف اپنی رائے دیتا ہے بلکہ اسے مسلط کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ پاکستان میں سی پیک کے تحت جاری کسی پروجیکٹ پر اگر کوئی ایسی کمپنی کام کررہی ہے جسے امریکا نے بلیک لسٹ کیا ہے تو اس کا پاکستان سے کیا تعلق ۔ کمپنی کو امریکا نے بلیک لسٹ کیا ہے ، پاکستان نے نہیں ۔ کیا امریکا پاکستان کے کسی ایسے فیصلے کا احترام کرے گا کہ جس کمپنی کو پاکستان نے بلیک لسٹ کیا ہے ، امریکا بھی اس کو بلیک لسٹ کردے ۔ عملی صورتحال یہ ہے کہ امریکا ہر اس شخص کے لیے پناہ گاہ کا کام کرتا ہے جو پاکستان کا مجرم ہے ۔ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جس طرح سے پہلے پاکستان سے اغوا کرکے بگرام ائربیس میں واقع جیل میں قید رکھا گیا اور پھر اس کے بعد انہیں امریکا لا کر کہا گیا کہ انہوں نے امریکی فوجی سے بندوق چھین کر اسے مارنے کی کوشش کی تھی اوراس احمقانہ مقدمے میں امریکی عدالت میں 80 برس کی سزا دی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا کا پاکستان کے ساتھ کیا رویہ ہے ۔ افغانستان پر حملے کے لیے امریکا نے پاکستان کے وسائل کا بھرپور استعمال کیا ۔ ان وسائل کے استعمال سے قبل امریکا نے ان کے اخراجات کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا جو آج تک پورا نہیں ہوا ۔ امریکی سازو سامان کی کراچی بندرگاہ سے افغانستان منتقلی اور افغانستان سے کراچی بندرگاہ منتقلی کے لیے جو بھاری ٹرالر استعمال ہوئے ، اُن کی وجہ سے ساری ہی اہم سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیں ۔ ان سڑکوں کی تعمیر نو اب سی پیک منصوبے کے تحت کی گئی ہے جس کا بھاری قرض پاکستانی قوم پر چڑھ گیاہے ۔ وعدے کے مطابق ان سڑکوں کی تعمیر کے اخراجات پینٹاگون یا امریکی حکومت کو ادا کرنے تھے ، جس سے امریکا نے یکسر انکار کردیا۔ اسی طرح پاکستانی فضائی حدود کو استعمال کرنے کا بل جو سات ارب روپے سے زاید ہے ، ابھی تک امریکی حکومت نے وعدے کے مطابق ادا نہیں کیا ۔ یہ اور اس طرح کے کئی ارب ڈالر کے بل امریکی حکومت کی جانب واجب ہیں جو امریکی حکومت وعدہ کرنے کے باوجود ادا نہیں کررہی ہے ۔ اصولی طور پر امریکی حکومت کو نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی حکومت کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والے نقصانات ، دہشت گرد ی کے ماحول کی وجہ سے معیشت کی تباہی کا نہ صرف ازالہ کرنا چاہیے بلکہ اس کی تلافی کے لیے پاکستان کو خصوصی مراعات دی جانی چاہییں ۔ پاکستان مسلسل امریکا سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے پاکستان امریکا سے امداد نہیں بلکہ تجارت کا طلبگار ہے مگر ہر مرتبہ امریکی حکام تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں ۔ ان مراعات کے تحت پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈی میں داخلے کے لیے خصوصی سہولت فراہم کی جانی چاہیے ، پاکستانی طالب علموں کو امریکی تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے خصوصی سہولت فراہم کی جائے اور اسی طرح پاکستانی شہریوں کو امریکا میں روزگار کی فراہمی میں عاید رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جائے ۔امریکا پاکستان کو اپنا اتحادی کہتا ہے ، ٹرمپ عمران خان نیازی کو اپنا دوست کہتے ہیں اور افغانستان میں اپنے مسائل کے حل کے لیے پاکستان سے مدد کے طلبگاررہتے ہیں مگر پاکستان میں امن کی بحالی اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے عملی کردار ادا کرنے سے انکاری ہے ۔ اس کے برعکس امریکا عملی طور پر پاکستان دشمنی کے اقدامات میں چابکدستی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ کئی مرتبہ یہ خبریں منظر عام پر آئی ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوںمیں امریکی کنٹریکٹر المعروف بلیک واٹر کے کارندے ملوث ہیں ۔ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کی وجہ سے پاکستانی معیشت گرداب میں پھنسی ہوئی ہے ، اگر امریکا چاہے تو ایک لمحے میں پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نکال کر گرین لسٹ میں شامل کرسکتا ہے مگر امریکا کے زیر اثر ایف اے ٹی ایف روز ہی پاکستان سے ایک نئی فرمائش کرتا ہے ۔ اسی طرح مسٹر ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے ہیں مگر عملی طور پر ان کی تھپکی مودی کے لیے ہے ۔ پہلی مرتبہ جب ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی ثالثی کی خدمات پیش کی تھیں ، اس کے فوری بعد ہی مودی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا تھا ۔ اب پھر ڈیووس میں امریکا نے مسئلہ کشمیر میں بطور ثالث اپنی خدمات پیش کی ہیں ۔ گزشتہ تجربے کے پیش نظر نئے خدشات پیدا ہوگئے ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ امریکا سے کہہ دیا جائے کہ اپنے معاملات خود دیکھے اور پاکستان کے معاملات پر رائے زنی سے گریز کرے ۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں جو نقصان ہو اہے ، اسے مع جرمانہ پورا کیا جائے ۔ اگر پاکستان کو پہنچے والے نقصانا ت کا بل ہی امریکا ادا کردے تو پاکستان کو آئی ایم ایف یا عالمی بینک کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ امریکا چین کی مخالفت میں پاکستان کو نشانہ نہ بنائے۔ چین نے بھی سی پیک میں امریکی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی چھڑی گھمانے والا امریکا یہ کام اپنے سیاسی مفادات کے لیے کرتا ہے۔