فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 15ستمبر سے لیکر 15دسمبر تک تورخم باڈر پر ہونے والی تجارت کے اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تین ماہ کے دوران 24گھنٹے باڈر کھلا رکھنے پر 10کروڑ روپے کے اضافی اخراجات آئے ہیں جبکہ 32ارب روپے برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح مختلف اشیاء کی درآمد میں اضافے کے ساتھ ہی 4ارب 40کروڑ روپے سے زائد درآمدی ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں بھی آمدن ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ خیبر پختون خوا تیمور سلیم جھگڑا نے ان اعداد وشمار کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ جس طرح تین ماہ میں بہترین نتائج سامنے آئے ہیں ایسا ہی نظام جاری رہا تو ایک سال میںصرف تورخم باڈر سے سالانہ برآمدات 80ارب روپے سے تجاوز کرسکتی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جا نب سے جاری کیے گئے ان اعداد وشمار پر صوبائی وزیر خزانہ کا یہ کہنا بلاشک وشبہ ایک خوشگوار مستقبل کی نوید ہے کہ اگر پاک افغان تجارت کا یہ دوطرفہ سلسلہ یوں ہی کامیابی سے چلتا رہا تو اس کے نتیجے میں نہ صرف پاک افغان دوطرفہ تعلقات آسمان کی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں بلکہ ان روابط سے پاکستان کی سالانہ برآمدات بھی 80ارب روپے سے تجاوز کر سکتی ہیں۔
یہاں سوچنے کا مقام یہ ہے کہ پتا نہیں ہمارے حکمرانوں اور خاص کر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام کے ذہنوں میں یہ برسر زمین حقیقت کیوں نہیں سماتی کہ کوئی بھی ملک تب تک نہ تو اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ ہمہ جہت ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے جب تک کوئی ملک اقتصادی طور پر خود کفالت اور استحکام کی منازل طے نہیں کر لیتا جبکہ اس جانب پیش رفت کا بنیادی پیمانہ چونکہ کسی بھی ملک کے تجارتی حجم اور برآمدات میں اضافے کو سمجھا جاتا ہے اس لیے پاکستان اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے ہماری حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو ایسی تجارت دوست پالیسیاں اور اقدامات اٹھانے ہوںگے جن کے ذریعے ہماری تجارتی ترجیح جہاں پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی سر گرمیوں کا فروغ ہونا چاہیے وہاں اس سلسلے میں علاقائی ممالک کے ساتھ زمینی راستوں کے ذریعے تجارت اور خاص کر گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں تک علاقائی ممالک کی رسائی کے ذریعے بھی ہم اپنی تجارتی سرگرمیوں کو کئی گنا زیادہ فروغ دے سکتے ہیں۔ تعجب کا مقام یہ ہے کہ ہم جیسے بیسیوں لوگ عرصہ دراز سے علاقائی تجارتی روابط کے فروغ کی نہ صرف تسلسل کے ساتھ وکالت کرتے رہے ہیں بلکہ اس ضمن میں اس خطے کے تین اہم اقتصادی فورمز یعنی ای سی او، ایس سی او اور سارک جن کا پاکستان موثر اور فعال رکن ہے کو اجتماعی طور پر فعال بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیتے آئے ہیں لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق ہماری یہ آواز اور تجویز مسلسل صدا بصحرا ثابت ہوتی آئی ہے لیکن خوشی کا مقام یہ ہے کہ اب جب وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت میں ایک اہم اور فعال وزیر سمجھے جانے والے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کے بقول متذکرہ تینوں علاقائی تنظیموں کے رکن افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کے لیے صرف ایک انٹری پوائنٹ (طو رخم) کا پاک افغان بارڈر 24گھنٹے کھلا رکھنے کا دانش مند فیصلہ کرنے سے محض تین ماہ کے قلیل عرصے میں پاکستانی خزانے کو 32ارب روپے سے زائد کا فائدہ ہوا ہے تو اگر طور خم کے ساتھ ساتھ پاکستان چمن بارڈر کے علاوہ شمالی وزیرستان کا غلام خان اور جنوبی وزیرستان وانا کے بارڈر بھی 24گھنٹے کھلے رکھنے کے علاوہ اسی نوع کے فیصلے ایران اور چین کے سا تھ دوطرفہ زمینی تجارتی روابط کے فروغ کے لیے بھی کیے جائیں اور اس ضمن میں تمام ضروری سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں تو اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے اقتصادی اعشاریے کن بلندیوں کو چھو سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر پاکستان امریکا طالبان مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں افغانستان کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے بعد پاکستان کو نہ صرف دیگر تمام مسائل کو کچھ عرصے کے لیے ایک طرف رکھتے ہوئے افغانستان کو پاکستانی مصنوعات کی وسطی ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی کے یک نکاتی ایجنڈے پر راضی کرنا چاہیے بلکہ اگر اس ضمن میں پاکستان کو افغانستان کو معمول سے ہٹ کر کچھ اضافی مراعات اور سہولتیں بھی دینی پڑیں تو خطے کا ایک ذمے دار اور بڑا ملک ہونے نیز متذکرہ بالا تینوں علاقائی اقتصادی تنظیموں کا مستقل رکن ہونے کے ناتے ایسے تلخ گھونٹ حلق سے اتارنے میں بھی کسی مصلحت اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہیے۔