بوٹ کے طواف سے بوٹ کے طواف تک

491

پنجابی کی معروف شاعرہ امریتہ پریتم کی ملاقات اردو کے ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی سے ہوئی تو بیدی صاحب نے امریتہ سے پوچھا آج کل کیا ہورہا ہے؟ امریتہ نے کہا کہ اپنی خود نوشت لکھنے کی تیاری کررہی ہوں۔ بیوی نے کہا تمہاری خود نوشت تو اتنی سی ہے کہ ایک ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ پر آسکتی ہے۔ امریتہ پریتم کو رسیدی ٹکٹ والی بات اتنی پسند آئی کہ انہوں نے خودنوشت لکھی تو اس کا نام ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ رکھا۔ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ کبھی اپنی خودنوشت لکھیں گے تو وہ بھی ایک رسیدی ٹکٹ سے زیادہ وسیع نہیں ہوگی، مگر اس کا نام ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ نہیں ہوگا۔ اس کا نام ہوگا ’’بوٹ کے طواف سے بوٹ کے طواف تک‘‘۔ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کو Define کرنے کے لیے اس سے زیادہ ’’بلیغ‘‘ فقرہ شاید ہی کوئی ہو۔
اس کے معنی یہ نہیں کہ میاں نواز شریف نے بوٹ کے طواف کے سوا کچھ کیا ہی نہیں۔ انہوں نے ایک زمانے بوٹ کو عزت دو کی سیاست کی۔ ’’کھوٹ کو عزت دو‘‘ کی سیاست کی۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی سیاست کی مگر میاں صاحب اور ان کے خاندان کے لیے جو لطف ’’بوٹ کے طواف‘‘ میں ہے وہ کسی اور چیز میں کہاں۔ یہی وجہ ہے کہ ’’وہ ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ لگاتے لگاتے برطانیہ فرار ہوئے تو ’’بوٹ کا طواف‘‘ کرنا نہیں بھولے۔ فوجی ایکٹ میں ترمیم پر ووٹ کا وقت آیا تو میاں صاحب نے ووٹ کو عزت دینے کے بجائے بوٹ کو عزت دے ڈالی۔ شاید اسی لیے اے آر وائی کے ایک پروگرام میں پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے ایک بوٹ ٹیبل پر رکھ کر فرمایا نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے یہ بوٹ زبان سے چاٹ کر چمکایا ہے۔ فیصل واوڈا کی یہ بات درست تھی مگر یہ پوری بات نہیں تھی۔ فیصل واوڈا پروگرام میں وہ دوسرا بوٹ نہیں لائے جسے پی ٹی آئی کی قیادت اور رہنما دن رات چاٹ کر چمکا رہے ہیں۔ مگر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔ بات ہورہی تھی میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی۔
یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل نے میاں شہباز شریف پر الزام لگایا تھا کہ وہ زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی مالی امداد کا بڑا حصہ ہڑپ کرگئے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ وہ ڈیلی میل اور اس کے رپورٹر ڈیوڈ روز کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے مگر اب میاں شہباز شریف دو ماہ سے لندن میں ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک ڈیلی میل اور اس کے رپورٹر کے خلاف مقدمہ دائر نہیں کیا۔ یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ پاکستان میں رہتے ہوئے میاں نواز شریف کے پلیٹ لٹس اتنے گر رہے تھے کہ ان کی زندگی دائو پر لگی ہوئی تھی مگر اب میاں نواز شریف کو برطانیہ گئے ہوئے دو ماہ ہوگئے ہیں لیکن ان کے پلیٹ لٹس کے گرنے یا اوپر نیچے ہونے کی کوئی اطلاع نہیں آئی۔ آخر یہ کیسے پلیٹ لٹس ہیں جو پاکستان میں گرتے ہیں اور برطانیہ میں نہیں گرتے؟ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پورا شریف خاندان کتنا بڑا جھوٹا، مکار اور دھوکے باز ہے۔ اب اطلاع آئی ہے کہ میاں صاحب ماشاء اللہ حامد کرزئی سے ملاقات فرما رہے ہیں، لندن کے ریستوران میں کھا پی رہے ہیں۔ اس پر پاکستان میں ہنگامہ ہوا تو شریف خاندان کی طرف سے یہ وضاحت سامنے آئی کہ ڈاکٹروں نے میاں صاحب کو ’’ہوا خوری‘‘ کا مشورہ دیا ہے۔ ساری دُنیا جانتی ہے کہ ہوا خوری باغ میں کی جاتی ہے ریستوران میں نہیں۔ ریستوران میں تو صرف ’’غذا خوری‘‘ ہوتی ہے۔ ہمیں یاد آیا کہ میاں صاحب تو اتنے بیمار ہیں کہ وہ پاکستان میں ’’پرہیزی کھانے‘‘ کھا رہے تھے مگر لندن میں ان کی صحت اتنی اچھی ہوگئی ہے کہ وہ اب ریستوران کے کھانے جزو بدن بنارہے ہیں۔
ان حقائق کے باوجود پاکستان کی صحافت میں ابھی تک بعض کالم نگار میاں صاحب کے سر پر ’’عظمت کا تاج‘‘ سجانے میں مصروف ہیں۔ خورشید ندیم نے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا۔
’’سیاست میں قدم رکھنے والا آدمی جو خواب دیکھتا ہے نواز شریف صاحب نے ان سب کی تعبیر بچشم سر دیکھ لی۔ صوبائی وزارت سے وزارت عظمیٰ تک اقتدار کی دیوی ان پر مختلف صورتوں میں مہربان رہی۔ وہ تین بار وزیراعظم بنے، یہ ریکارڈ شاید ہی کوئی توڑ سکے۔ اقتدار کے ساتھ انہوں نے عوام کے دلوں میں بھی جگہ بنائی۔ ان کا شمار پاکستان کے مقبول ترین رہنمائوں میں ہوگا‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 13 جنوری 2020ء)
اقبال نے کہا ہے:
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زِندگی
سوال یہ ہے کہ کیا میاں نواز شریف نے اپنی سیاسی دنیا آپ پیدا کی؟ اس سوال کا جواب ساری دنیا جانتی ہے۔ میاں نواز شریف کی سیاسی دنیا جرنیلوں نے پیدا کی۔ لیکن خورشید ندیم میاں نواز شریف کی مانگے کی دنیا کا ذکر ’’فخر‘‘ کے ساتھ کررہے ہیں اور اسے میاں صاحب کی عظمت کی دلیل بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کس فخر کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ میاں صاحب تین بار وزیراعظم رہے، شاید ہی یہ ریکارڈ کوئی توڑ سکے۔ بھیک تین بار کیا، تین ہزار بار بھی مل جائے تو وہ بھیک ہی رہتی ہے۔ چناں چہ بدقسمتی سے خورشید ندیم جس چیز کو ’’ریکارڈ‘‘ کہہ رہے ہیں وہ میاں صاحب کا ’’سیاسی گناہ‘‘ ہے۔ مگر خورشید ندیم گناہ کی بھی ’’تشہیر‘‘ فرما رہے ہیں۔ خورشید ندیم نے میاں نواز شریف کو ’’مقبول رہنما‘‘ بھی بنادیا۔ ان کے بقول میاں صاحب لوگوں کے ’’دلوں‘‘ میں بستے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر میاں صاحب واقعتاً عوام کے دلوں میں بستے ہیں تو جرنیل انہیں ہر بار جوتے مار کر اقتدار سے باہر کرنے میں کیسے کامیاب ہوجاتے ہیں؟ آخر عوام اپنے دلوں میں بسنے والے رہنما کی جنگ گلی کوچوں میں نکل کر کیوں نہیں لڑتے؟ کل کی بات ہے مصر کے بدمعاش جرنیلوں نے اخوان المسلمون کے صدر کو اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ لاکھوں مصری سڑکوں پر نکل آئے۔ مصر کے ’’بہادر جرنیلوں‘‘ نے ہزاروں لوگوں پر ٹینک چڑھا دیے۔ 6 ہزار سے زیادہ لوگوں کو مار ڈالا مگر اس کے باوجود لوگ کئی ماہ تک مرسی کی جنگ لڑتے رہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’عوامی مقبولیت‘‘۔ طیب اردوان کے خلاف ترکی کے جرنیلوں نے سازش کی، طیب اردوان نے صرف ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، لاکھوں ترک باشندے سڑکوں پر نکل آئے، وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، انہوں نے ترکی کے فوجیوں کو ہر مقام پر پکڑ کر جوتے مارے، ترکی کے جرنیلوں کی سازش ناکام ہوگئی۔ اسے کہتے ہیں ’’دلوں میں بسنا‘‘۔ اسے کہتے ہیں ’’مقبولیت‘‘۔ میاں صاحب کی ’’مقبولیت‘‘ کا یہ عالم ہے کہ ان کا اپنا سگا بھائی بھی ان کے لیے جان دینے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ میاں صاحب ابھی کچھ عرصہ پہلے لندن سے ’’انقلابی‘‘ بن کر لوٹے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ لاکھوں لوگ ان کا استقبال کرنے ہوائی اڈے آئیں گے۔ مگر کوئی اور کیا میاں شہباز شریف بھی طے شدہ منصوبے کے تحت ہوائی اڈے نہ پہنچے۔ نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق بھی لاہور کے ہوائی اڈے نہ پہنچ سکے۔ یہ تھی میاں نواز شریف کی ’’تاریخی مقبولیت‘‘۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو میاں نواز شریف کی مقبولیت، مقبولیت نہیں ہے، اس مقبولیت کو زیادہ سے زیادہ ’’شہرت‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔
خورشید ندیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ میاں صاحب نے ’’جس ’’وقار‘‘ کے ساتھ جیل کاٹی وہ ان کے صاحب عزیمت ہونے کی دلیل ہے۔ میاں نواز شریف نے جس ’’وقار‘‘ کے ساتھ جیل کاٹی ہے وہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے۔ انہیں جیل میں اے سی درکار تھا۔ اس لیے کہ اے سی میں بڑا ’’وقار‘‘ پایا جاتا ہے۔ انہیں جیل میں ’’آرام دہ بستر‘‘ چاہیے تھا اس لیے کہ آرام دہ بستر ’’وقار‘‘ سے بنا ہوتا ہے۔ انہیں جیل میں ’’ٹی وی‘‘ میسر تھا۔ اس لیے کہ ٹی وی میں ’’وقار‘‘ کا خون دوڑتا ہے۔ انہیں جیل میں برگر اور سری پائے فراہم تھے اور کون نہیں جانتا کہ برگر وقار میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور سری پائے ’’وقار‘‘ کے تیل سے بگھارے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ ’’وقار‘‘ جس کا میاں نواز شریف نے جیل میں مظاہرہ کیا۔ میاں صاحب کے ساتھ لفظ عزیمت کو وابستہ کرنا لفظ عزیمت کی پگڑی ا چھال دینے کے مترادف ہے۔ اگر معاشرہ زندہ ہوتا تو صرف اس غلطی پر خورشید ندیم کے ہاتھ سے قلم چھین لیتا۔ عزیمت اتنا بڑا لفظ ہے کہ تاریخ کی بہت ہی بڑی شخصیات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جتنے Vulgar میاں نواز شریف ہیں اتنے ہی Vulgar ان کے صحافتی پرستار ہیں۔
خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میاں نواز شریف کی وجہ سے سیاست کے سب حجاب اُٹھ گئے۔ آج ایوانِ اقتدار اور عوام کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں۔ کون کہاں بیٹھا حکم دے رہا ہے اور کون حکم بجا لارہا ہے سب دیکھ رہے ہیں۔ خورشید ندیم کی اطلاع ک لیے عرض ہے کہ سیاست کے تمام حجابات 1954ء سے اُٹھے ہوئے ہیں۔ یہ حجابات اس وقت بھی اُٹھے ہوئے تھے جب 25 سال تک میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ’’پالتو‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے۔ اس وقت بھی شریف خاندان ڈیل اور ڈھیل کے مزے لوٹ رہا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ایک قومی مجرم بیماری کی آڑ میں برطانیہ کی Seven Star زندگی کا لطف نہ اُٹھا رہے ہوتے۔
خورشید ندیم کے مطابق نواز لیگ میں دو مکتب فکر ہیں ایک وہ جو موجودہ بندوبست کو چیلنج کرنا جانتا ہے دوسرا وہ جو بندوبست کا حصہ بن کر شریک اقتدار ہونا چاہتا ہے۔ خورشید ندیم کے بقول ’’دونوں طرف‘‘ رابطوں سے امید کی کرن نظر آئی ہے اور ممکن ہے کہ اقتدار کی دیوی ایک بار پھر شریفوں پر مہربان ہوجائے۔ بلاشبہ یہ ممکن ہے مگر سوال یہ ہے کہ بوٹ کو عزت دے کر اقتدار حاصل کرنے میں کون سی ’’عزت‘‘ کون سا ’’وقار‘‘ اور کون سی ’’عزیمت ہے؟۔
میاں نواز شریف کے ایک اور صحافتی وکیل محمد بلال غوری ہیں۔ انہوں نے 15 جنوری 2020ء کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم میں فرمایا ہے کہ میاں صاحب نے جو چال چلی ہے وہ ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی۔ ہمیں یقین ہے کہ میاں صاحب کو تین بار جوتے مار کر اقتدار سے نکالا گیا تو یہ بھی میاں صاحب کی ’’چال‘‘ ہوگی۔ میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ’’گاڈ فادر‘‘ اور ’’مافیا‘‘ قرار دیا تو یہ بھی میاں صاحب کی ’’چال‘‘ ہوگی۔ میاں صاحب نے ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا راگ الاپا تو یہ بھی ان کی چال ہوگی۔ انہوں نے ’’خلائی مخلوق‘‘ ایجاد کی تو یہ بھی ان کی چال ہوگی۔ ظاہر ہے کہ یہ چالیں بھی کسی کو سمجھ میں نہیں آئیں ہوں گی۔ بلاشبہ میاں صاحب ایک بار پھر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ لیکن یہ میاں صاحب کی خوش قسمتی نہیں ہوگی یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہوگی اور اس سے ایک بار پھر ثابت ہوگا کہ صرف چور، ڈاکو، لٹیرے اور غدار ہی ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں۔