عمرانی حکومت کے لیے ٹرانسپیرنسی کا آئینہ

436

کرپشن کے خلاف وزیر اعظم عمران خان نے بڑی محنت سے جو دیوار اٹھائی تھی وہ ایک ہی ٹھوکر میں زمیں بوس ہو گئی ۔ بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی نے رپورٹ دی ہے کہ عمران خان کے دور اقتدار میں کرپشن کم نہیں ہوئی بلکہ اس میں اضافہ ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ حکومت ہرگز بھی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرے گی چنانچہ حکومت کی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے حق نمک یا حق وفا داری ادا کرتے ہوئے فوری طور پر اس رپورٹ کو مسترد کر دیا بلکہ اس شبہے کا اظہار بھی کیا کہ اس رپورٹ کے لیے مسلم لیگ ن نے پیسے دیے ہوں گے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ جب میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ٹرانسپیرنسی کی مثبت رپورٹ آئی تھی تو عمران خان نے کھل کر کہا تھا کہ نواز شریف ہر ایک کو پیسے کھلا دیتے ہیں ، ایجنسی کو بھی پیسے دیے ہوں گے کہ ان کے حق میں رپورٹ دے ۔ حکومت کچھ کہتی رہے لیکن تمام تجزیے متفق ہیں کہ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے ۔ا ب تو پی ٹی آئی کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ارکان تک کہہ رہے ہیں کہ صوبے میں کرپشن بڑھ گئی ہے اور یہ وہ صوبہ ہے جہاں گزشتہ ساڑھے چھ سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے ۔ اسے بھی چھوڑیے ، یہ جو آٹے اور چینی کا بحران پیدا ہوا ہے اس میں بھی لازماً کرپشن کا دخل ہے چنانچہ سرکاری ایجنسیاں تحقیقات کر رہی ہیں ۔کرپشن کے علاوہ ناا ہلی اور نا تجربہ کاری میں تو کوئی شک ہی نہیں ۔ کہا جا رہا ہے کہ آٹے کا کوئی بحران نہیں تو پھر گندم درآمد کیوں کی جار ہی ہے ۔آٹے چکیاں بند ہو رہی ہیں اور نانبائی ہڑتال کر رہے ہیں اور جو تنور کام کر رہے ہیں انہوں نے روٹی کا وزن کم کر دیا ہے ۔ اگر حکومت عوام کو سستا آٹا فراہم نہیں کر سکتی تو اس کے اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا ۔ عمران خان اور ان کے حواری کبھی عوام کی بات بھی سنیں جو کہہ رہے ہیں کہ یہ عذاب کب تک مسلط رہے گا ۔ اب چینی کا بحران پیدا ہو گیا ہے اور اس کی وجوہات جاننے کی ذمے داری خسرو بختیار اور جہانگیر ترین کے سپرد کی گئی ہے یعنی دودھ کی رکھوالی بلوں کے حوالے ۔ ان حضرات کے چینی کے اپنے کار خانے ہیں ۔ یہی نہیں چینی کے 70 فیصد کار خانوں کے مالک اس وقت حکومت میں ہیں ۔ جہانگیر ترین ماہر زراعت سمجھے جاتے ہیں لیکن ان کو یہ نہیں معلوم تھا کہ گندم کا بحران پل رہا ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے انہیں تا عمر نا اہل قرار دیا ہے لیکن ان کی نا اہلی سے عمران خان فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ عمران خان کب سے شور مچا رہے ہیں کہ کرپٹ مافیا کا مقابلہ ایک بڑا چیلنج ہے ۔ لیکن انہیں اپنی صفوں میں مافیاز نظر نہیں آ رہیں ۔ اس پر بھی عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ’’ میری حکومت شفاف ترین ہے ‘ لوگ اخبار پڑھنا اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑ دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ‘‘۔ آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان نے تو یہ نسخۂ بے خبری صرف چھ ماہ کے لیے تجویز کیا تھا لیکن عمران خان کا مشورہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں پر پٹی باندھ لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ عمران خان کے اس بیاننے میں اب کوئی جان نہیں رہی کہ ہر خرابی کی ذمے دار سابق حکومتیں تھیں ۔ یہ بات اتنی فرسودہ ہو گئی ہے کہ اب شاید وہ بھی اس سے اتفاق نہیں کرتے جنہوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا ۔ ماضی کی حکومتوں پر الزامات کا سلسلہ آخر کب تک چلے گا؟ پاکستان کا وزیر اعظم ملک سے باہر جا کر بھی گندے کپڑے سر عام دھوتا ہے ۔ انہوں نے ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم سے خطاب اور انٹر نیشنل میڈیا فورم میں گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف سابقہ حکومتوں بلکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے خلاف بھی شکایتوں کے انبار لگا دیے ۔ عمران خان یہ کام پہلے بھی کر چکے ہیں جس سے شاید ان کی واہ واہ تو ہو جاتی ہو مگر ملک بدنام ہوتا ہے۔عمران خان نے نیا انکشاف یہ کیا ہے کہ ’’ فوج سے کشیدگی کی وجہ سابقہ حکومتوں کی کرپشن تھی ‘‘۔ اس سے یہ واضح نہیں ہو رہا کہ فوج سے کشیدگی کس کی تھی؟ کیا سابقہ حکومتوں کی یا عمرانی حکومت کی ۔ سابق ادوار میں کرپشن یقیناً بہت ہو گی لیکن اس سے فوج کی کشیدگی کا کیا تعلق ہے؟ کہتے ہیں کہ سابقہ حکومتیں اپنی کرپشن کی وجہ سے ڈری سہمی رہتی اور فوج کو کنٹرول کرنا چاہتی تھیں۔ تو کیا عمران خان نے فوج کو کنٹرول کر لیا یا اس کے کنٹرول میں ہیں؟عمران خان مافیائوں کے خلاف خوب بولتے ہیں لیکن انہیں گندم مافیا اور چینی مافیا نظر نہیں آئیں۔ اگر یہ من مانی کر رہی ہیں تو حکومت کہاں ہے؟ عمران خان کے وفادار شیخ رشید انکشاف کر چکے ہیں کہ شوگر مافیا نے انہیں بھی دھمکیاں دیں۔ اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟ شیخ رشید نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ عمران خان کرپٹ ہے۔ نہیں ہوں گے لیکن کیا حکومت کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے۔ ایک مسجد کا امام بھی کرپٹ نہیں ہوتا لیکن کیا اس بنیاد پر حکومت دے دی جائے۔ حکومت کرنے کے لیے جو صفات درکار ہیں ان کا فقدان ہے۔ پانچ سال پورے ہونے تک جانے عوام کا کیا حشر ہو۔