کبھی کبھی تو یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کو خاتون اوّل بشریٰ بی بی کو رابعہ بصریٰ بنانے کی ذمے داری سونپی گئی ہے مگر وہ اپنی وزارت کی طرح اس ذمے داری کو بھی نبھانے میں بُری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود شیخ جی اپنی کارگزاری میں زمین آسمان کے قلاب ملاتے نہیں تھکتے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے میں ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ جن کے گریبان شکن آلود ہوں دامن چاک ہوں اور چولیاں اُتری ہوئی ہوں ان میں اتنا دم خم نہیں کہ وہ اس معاملے میں رخنہ انداز ہونے کے بارے میں سوچ سکیں اور اگر بولنے کی کوشش کریں گے تو زبان پر چھالے پڑ جائیں گے۔ وطن عزیز میں سیاست کاروں کی جو فصل لہرا رہی ہیں اس کی تخم ریزی فوج کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے۔ بھٹو مرحوم سے عمران خان تک سبھی فوج کی نرسری کی پیداوار ہیں۔ یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ روبوٹ تخلیق کار کے حکم سے انکار کرے، ٹی وی اینکرز اس معاملے میں اپنی ذہنی اور علمی توانائیاں صرف کررہے ہیں جو ایک لاحاصل عمل ہے، کیوں کہ یہ لوگ سیاست دانوں کی نفسیات سے واقف ہیں نہ قوم کی کیمسٹری سے آگاہ ہیں۔ ٹی وی چینل پر آکر تیرتکے کا کھیل کھیلتے یا لکیر کو پیٹتے رہتے ہیں وہ اس حقیقت کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اصل حکمران اپنے اختیارات کسی کو نہیں سونپتے۔ حکمرانی ہاتھی کی سواری بن جاتے تو ہاتھی مہاوت کے اشاروں پر چلتا ہے قوم بے وقار اور ادارے اپنی حرمت سے محروم ہوجاتے ہیں۔
نادر شاہ نے دلّی فتح کی تو اسے ہاتھی کی سواری پیش کی گئی، ہاتھی پر بیٹھ کر اس نے مہاوت سے کہا کہ اس کی لگام مجھے دو۔ مہاوت نے کہا، حضور! اس کی لگام نہیں ہوتی یہ میرے اشاروں پر چلتا ہے۔ یہ سنتے ہی نادر شاہ ہاتھی سے اُتر گیا اور کہا، میں ایسی سواری پر نہیں بیٹھ سکتا جس کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ وطن عزیز کے بادشاہ ہاتھی کی سواری پسند کرتے ہیں اور مہاوت کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اعتزاز احسن نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ قانون کی بالادستی نہیں ذہنی
پستی کی انتہا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا بااثر طبقہ جنرل پرویز مشرف کو مصلوب کرانے کا شدید خواہش مند ہے۔ احتساب عدالت نے ان کی خواہش کی تکمیل کی اور جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنادی۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے احتساب عدالت کے فیصلے کو نہ صرف کالعدم قرار دے دیا بلکہ عدالت ہی کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ سوال یہ ہپے کہ عدالت عظمیٰ کیا فیصلہ کرتی ہے مگر عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ ہذیان میں مبتلا لوگوں کو کسی اعلیٰ عہدے پر فائز رہنا چاہیے؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہذیان میں مبتلا مریضوں کو اعلیٰ عہدوں سے کیوں نوازا جاتا ہے اور جب وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور ملک و قوم کی تضحیک کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ ماڈل کورٹس قائم کرکے فخریہ انداز میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ مگر عشروں سے پڑے مقدمات کو نمٹانے سے گریزاں ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ عدلیہ کب تک سائلین کو ذہنی اذیت سے دوچار کرتی رہے گی کب تک نسل در نسل مقدمات چلتے رہیں گے۔ اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ پاکستان کے ہر چیف جسٹس نے اعتراف کیا ہے کہ ہمارا نظام عدل انصاف کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ قوم کب تک اس اذیت سے دوچار ہوتی رہے گی۔