اُلّوکے پٹّھے

506

جنرل واجد علی برکی پاک فوج کے بااثر جنرلوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ معروف مزاح نگار کرنل شفیق الرحمن ان کے قریبی دوست تھے۔ ایک مرتبہ کمبائنڈ ملٹری اسپتال پنڈی میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا۔ جنرل برکی نے شفیق الرحمن کو دعوت دی کہ کیوں نہ آپ کو یہاں بطور سی او تعینات کردیا جائے۔ شفیق الرحمن نے روایتی عجز وانکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ’’بندہ اتنی عظیم ذمے داری نبھانے کے قابل کہاں، بہتر ہے آپ کسی قابل آدمی کا انتخاب کیجیے‘‘۔ جنرل برکی نے کرنل شفیق الرحمن کو بازو سے پکڑا اور سی او کے دفتر کے اندر لے جاکر بولے ’’یہاں ایک سے ایک نالائق اور الّو کا پٹھا بھرا پڑا ہے، تم کسی سے کم ہو کیا‘‘۔ سی ایم ایچ پنڈی کے بارے میں جو بات جنرل برکی نے کہی وہ پاکستان کی ہر حکومت کے بارے میں کہی جاسکتی ہے لیکن جس پائے کے گدھے اور اُلّو کے پٹھے تحریک انصاف نے متعارف کرائے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اُلّو کے پٹھے پر ایک واقعہ یاد آگیا ہے۔ سن لیجیے۔ اہل دلّی اور لکھنو کے درمیان نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ دونوں کا دعویٰ تھا کہ وہ زیادہ اچھی اردو بولتے اور اچھے شعر کہتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو مصرعے بھیجتے کہ اس پر گرہ لگائیں۔ ایک بار دلی والوں نے لکھنو والوں کو مصرع بھیجا ’’رگ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں‘‘۔ لکھنو والوں نے اس پر گرہ لگائی
سنا ہے کہ دلی میں الو کے پٹھے
رگ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
جس طرح سے اس حکومت میں الو کے پٹھوں نے لوگوں کو الو بنایا ہے وہ بے مثل ہے۔ آٹے کا بحران اس کی مثال ہے۔
کیک بسکٹ کھائیں گے الو کے پٹھے رات دن
اور شریفوں کے لیے آٹا گراں ہوجائے گا
آٹے کا بحران حکومت کی غیر معمولی بد انتظامی اور صلاحیتوں کی بدچلنی کا اسپیشل ایڈیشن ہے۔ یہ وہ حادثہ ہے حکومت نے آتے ہی جس کی پرورش شروع کردی تھی۔ گزشتہ سات آٹھ مہینے سے خان صاحب دعوے کررہے تھے کہ وہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو واپس لے آئیں گے۔ وہ چونکہ بہت زیادہ ورزش کرتے ہیں اس لیے انہیں خبر نہیں کہ بڑھا ہوا پیٹ اور بڑھا ہوا ریٹ کبھی واپس نہیں جاتا۔ اب وہ سر کھجاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اتنی ہوگئی ہے کہ میرا اپنا گزارا بڑی مشکل سے ہورہا ہے۔ نجانے وہ کس سے کہہ رہے ہیں۔ کس سے مداوا چا ہتے ہیں۔ خاتون اول کو ایک مرتبہ پھر انہیں یاد دلانا ہوگا کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ بحران کو مدعو کرنے کی کوششیں اس وقت آغاز ہوئیں جب گزشتہ برس فروری میں حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پانچ لاکھ ٹن گندم افغانستان ایکسپورٹ کی جائے گی حالانکہ اس برس گندم کی پیداوار اچھی نہیں ہوئی تھی۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد ہمارے پاس اتنی گندم نہیں تھی کہ ہم ایکسپورٹ کرسکیں لیکن حکومت ملکی ضروریات کو نظر انداز کرکے ایکسپورٹ کرتی رہی۔ پانچ ماہ گزرے تھے کہ جون 2019 میں منسٹری آف فوڈ سیکورٹی نے حکومت کو آگاہ کیا کہ خدا کے واسطے وطن عزیز سے دشمنوں جیسا سلوک نہ کریں۔ پاکستان کے عوام آپ کے سوتیلے نہیں ہیں گندم ایکسپورٹ نہ کریں ورنہ ملک میں آٹے کا بحران آجائے گا۔ حالات خراب ہوجائیں گے۔ یہ غوغا خان صاحب کو پسند نہیں آیا وہ اکڑ گئے۔ خان صاحب اکڑنے کو مردانگی کی واحد علامت سمجھتے ہیں۔ اگلے ماہ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے بھی ایسی ہی رپورٹ دی۔ ٹھیک ٹھاک گندم ایکسپورٹ کرنے اور بحران کو پاکستان کی گلیوں اور بازاروں میں دندنانے کے قابل کرنے کے بعد حکومت نے بالآخر گندم کی ایکسپورٹ پر پابندی لگادی۔ اس اعلان کے بعد بھی آٹا افغانستان ایکسپورٹ ہوتا رہا۔ اس امپورٹ ایکسپورٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے ملک میں ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔
اب یہ پوچھنا بوریت میں مزید اضافے کا باعث بنے گا کہ کہاں گئی وہ معاشی ٹیم خان صاحب جس کے دعوے کرتے تھے۔ خان صاحب کی معاشی ٹیم ون مین شو ہے۔ یہ ون مین عمران خان نہیں ہیں وہ تو محض شو بوائے ہیں، اصل کیرکٹر جہانگیر ترین ہیں۔ بسا اوقات گمان گزرتا ہے تبدیلی جہانگیر ترین کو نوازنے کے لیے عمل میں لائی گئی ہے۔ حکومت کے ہر کارنامے کے بعد گالیاں خان صاحب کو اور ثمرات جہانگیر ترین کو ملتے ہیں۔ گندم ایکسپورٹ کا ٹاسک بھی جہانگیر ترین کو دیا گیا تھا اس کے نتیجے میں گندم کی قلت ہوئی تو تین لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا ٹھیکہ بھی جہانگیر ترین کو ہی دیا جارہا ہے۔ جہانگیر ترین کو نوازنے کے لیے چینی کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچادی گئیں اور اب آٹے کے بحران سے حاصل فوائد بھی جہانگیر ترین ہی سمیٹیں گے۔ ہر بحران اور مہنگائی کے بعد جہانگیر ترین کا بول بالا ہوجاتا ہے۔ جو گندم درآمد کی جائے گی کیا اس کے بعد بحران کا فوری خاتمہ ہوجائے گا۔ جی نہیں۔ گندم آنے میں کئی مہینے لگیں گے تب تک گندم کی نئی فصل بھی آجائے گی۔ امپورٹ شدہ گندم سے کاشتکار مارے جائیں گے۔ غریبوں کی غربت اور افلاس مزید بڑھ جائے گی جب کہ جہانگیر ترین مافیا اربوں روپے کما چکی ہوگی۔
بھوک اور نا امیدی ملک کے طول وعرض میں پھیلتی جارہی ہے۔ بد مست گدھے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے دولتیاں چلارہے ہیں۔ شیخ رشید نے آٹے کے بحران کی وجہ یہ بتائی کہ نومبر دسمبر میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں۔ ایک دوسرے وزیر نے نان بائیوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پیڑا چھوٹا بنائیں۔ کے پی کے سے نصیحت کی گئی ہے کہ سفید آٹا کھانا چھوڑ دیں۔ اس تمام صورتحال میں جب کہ عوام سے بدترین سلوک کیا جارہا ہے اپوزیشن اپنی پناہ گاہوں میں دبکی بیٹھی ہے۔ ووٹ کو عزت دلانے میں تو اپوزیشن کامیاب نہ ہوسکی عوام کو روٹی دو کی جدوجہد میں بھی اس کا کردار بارہویں کھلاڑی کا ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل سے لاتعلق ہوتی جارہی ہیں۔ عوام اور سیاسی جماعتیں مخالف سمتوں میں سفر کررہی ہیں۔ اپوزیشن جب بولتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ خود بھی اپنے کردار سے مطمئن نہیں۔ سیاسی جماعتیں نہ تو حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کامیاب نظر آتی ہیں اور نہ عوام کے مسائل کے حل میں دلچسپی لیتی ہوئی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ایسا لگتا ہے سب ایسے مہرے ہیں جن کی جنبش اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں کی منتظر ہو۔ اپوزیشن اس وقت کے انتظار میں لگتی ہے جب حکومت اور فوج کی یک جائی کا پیج پھٹنے لگے۔
اس مایوس کن صورتحال میں امیر جماعت اسلامی نے مہنگائی کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ جن دنوں کراچی کی صورتحال کے جواب میں مقتولین کی تعداد بتائی جاتی تھی جماعت اسلامی اس وقت بھی الطاف حسین جیسے ظالم اور جابر کے مقابل تھی۔ آج بھی کراچی کے مسائل پر اگر کوئی موثر آواز اٹھتی ہے تو جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اٹھتی ہے۔ مہنگائی کے خلاف تحریک چلاتے سمے جماعت اسلامی کو اپنے لہجے کی جھنجلاہٹ کو غصے اور غیظ وغضب میں بدلنا ہوگا ورنہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے جیسے ٹھس پٹاخے کے بعد ڈھیلی ڈھالی تحریک سے ایسا نہ ہو لوگ سیاسی جماعتوں سے بالکل ہی مایوس ہوجائیں۔ امیر جماعت اسلامی کو اس تحریک کا ذاتی فائدہ یہ ہوگا کہ بیٹھے بیٹھائے بیرون ملک اربوں کھربوں کی جائداد نکل آئیں گی۔ ممکن ہے یہ راز بھی راز نہ رہے کہ برج الخلیفہ ان ہی کی ملکیت ہے۔ اپوزیشن کو آداب اور وقت کے تقاضے سکھانے کے نیب کے اپنے ہی طریقے ہیں۔ لوگ سات سمندر پار علم وہنر حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے ہیں نیب بغیر سفر اور رخت سفر لاکھوں کروڑوں کی منی ٹریل اپوزیشن کے نام کردیتی ہے۔ اور کیا چاہیے۔