ایف اے ٹی ایف۔ دعوے کہاں گئے

299

پاکستانی حکمرانوں نے گزشتہ مہینے بھر سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ اب پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکل آئے گا۔ ہماری بڑی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ اور جتنی تعریف وہاں سے جاتی ہے اس سے کہیں زیادہ وزرا خود کرنے لگتے ہیں لیکن ایک خلیجی اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ پاکستان کے اگلے چھ ماہ تک گرے لسٹ میں رہنے کا خدشہ ہے۔ خلیجی اخبار نے یہ خبر پاکستان کے وزیراعظم کی اکنامک ایڈوائزری کونسل کے رکن اشفاق احمد خان کے حوالے سے دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی اسباب کی وجہ سے پاکستان کو گرے لسٹ میں رہنا پڑ سکتا ہے۔ ورنہ ہمارے اقدامات تو بہت اچھے ہیں۔ یعنی پھر اپنی تعریف… مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل بھی سیاست کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں عالمی سیاست کاروں اور ان کو چلانے والوں کا یہی خیال ہے کہ اسے معاشی اور سیاسی پابندیوں میں رکھا جائے یا بھارت کے ساتھ الجھا کر رکھا جائے۔ چنانچہ دونوں کام ہو رہے ہیں۔ معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستانی حکمران پھر آئی ایم ایف اور عالمی ساہو کاروں کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔ یوں ان کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے خدشات کو تقویت امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کے مطالبے سے بھی ملتی ہے جو آج کل پاکستان کی بہت ہمدرد ہیں۔ انہیں چین سے قرضوں پر بھی پاکستان کے لیے درد اٹھ رہا ہے۔ ایلس نے صاف کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات سیاسی نہیں تکنیکی ہیں۔ پاکستان کو اس کے ساتھ وعدے پورے کرنا ہوں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں طرف امریکا ہی کھیل رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں حکمران خود ہی واہ واہ کر رہے ہوں گے۔ لیکن یہ خبریں کوئی اور ہی پتا دے رہی ہیں۔اشفاق احمد خان جن اقدامات کی خود ہی تعریف کر رہے ہیں ان اقدامات نے پاکستانی معیشت ، تاجروں اور عوام کی کمر توڑ دی ہے۔