مسئلہ کشمیر، غت ربود

472

بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کے 175 ویں روز بھی مظالم میں کمی نہیں کی اور مزید 2 نوجوانوں کو کریک ڈائون میں شہید کردیا۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے میں 7 شہادتیں ہو چکی ہیں۔ لیکن کشمیریوں کی وکالت کے سب سے بڑے ذمے دار ملک کی حکومت کا رویہ ایسا ہے جیسا کہ مختلف کہانیوں اور واقعات میں غیر ذمے دار حکمرانوں کا بتایا جاتا تھا۔ مشاعرے، مباحثے یا حلوہ پکانے کے احکامات گویا ایک مذاق تھا۔ اور یہ مذاق اب بھی جاری ہے۔ اب ہمارے حکمران جوابی طور پر صرف بیانات کی توپیں چلاتے ہیں۔ جیسا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پاکستانی حکمرانوں کی کمزوری اور بھارت کی عیاری کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر غائب ہو جائے گا، تو ایسا ہی ہوگیا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے چند روز قبل کہا تھا کہ دنیا میں جنگ کا سب سے زیادہ خطرہ کشمیر میں ہے۔ لیکن کیسے…؟؟ انہوں نے اس کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ خطرہ کیسے ہے۔ جب پاکستانی فوج نے کہہ دیا کہ کشمیر میں جنگ نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نے کہہ دیا کہ جنگ نہیں ہوگی، تو کشمیر میں جنگ کا خدشہ کیونکر ہے۔بلکہ وہ تو سوال کر رہے ہیں تھے کہ کیا میں جنگ چھیڑ دوں؟ صرف بیانات سے جنگیں نہیں ہوتیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس کے بعد متنازع شہریت بل کے بعد یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب کشمیر اصل مسئلہ نہیں رہے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس پر بابری مسجد کا متنازع فیصلہ بھی ہمارے حکمران خاموشی سے پی گئے بلکہ عین اسی روز سکھوں کے نام پر قادیانیوں کے لیے کرتارپور کا راستہ کھول دیا گیا۔اقوام متحدہ ، او آئی سی، حکومت پاکستان، انفرادی طور پر امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک نے ایک ہی بات کہنا شروع کردی کہ کرفیو اٹھایا جائے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کی جائیں، مواصلاتی رابطے بحال کیے جائیں۔ اب وزیراعظم عمران کان نے فرمایا ہے کہ دنیا مسئلہ کشمیر کو آسان نہ لے۔ عالمی برادری تسلیم کر رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کا فاشسٹ نظریہ مسلط ہے۔ مودی کی سفاک پالیسیوں کا نشانہ مسلمان ہیں۔ وہ پتا نہیں کس کو خوفزدہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بھارت کا نظریہ خطے کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مقبوضہ وادی میں 80 لاکھ افراد محاصرے میں ہیں۔ خون خرابا ہو سکتا ہے۔ یہ خون خرابا تو ہو رہا ہے۔ بھارت روز مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے، لیکن جنگ نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کا خون تو بہتا رہے گا۔ بھارتی فوج کا خون محفوظ رہے گا اور پاک فوج کو بھی اس خون خرابے سے دور رکھا جا رہا ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا تازہ بیان بھی اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر غت ربود ہو چکا… اب جو کچھ ہو گا کشمیریوں کی اپنی جدوجہد سے ہو گا۔ پاکستانی حکمران کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ایلس ویلز نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت کشمیر میں تمام سیاسی رہنمائوں کو فوراً رہا کرے۔ اس سے کشمیریوں کا مسئلہ کیسے حل ہو گا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بھارتی حکومت ہمارے سفارتکاروں کو کشمیر تک مسلسل رسائی دے۔ اور بہت بڑی بات یہ ہے کہ ہم بھارت کے متنازع شہریت بل کا کڑا جائزہ لے رہے ہیں۔ تو اس سے کشمیریوں کا مسئلہ کیسے حل ہوگا، اگر سب مل کر کشمیریوں کے حق خودارادی کے بجائے انسانی حقوق، سیاسی رہنمائوں کی گرفتاری، سفارتکاروں کی رسائی اور موبائل اور انٹرنیٹ کی بات کریں گے تو یہی باتیں ہوں گی لیکن کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کشمیر میں سیاسی رہنما گرفتار ہی اس لیے ہوتے ہیں کہ بھارت کشمیریوں کو ان کا حق نہیں دینا چاہتا۔ کشمیر میں مظالم بھی اس لیے ہو رہے ہیں کہ بھارت جذبۂ حریت کو دبانا چاہتا ہے۔ وہاں انٹرنیٹ سروس، موبائل وغیرہ بند ہونے اور غیر ملکی سفارتکاروں یا انسانی حقوق کی تنظیموں کو رسائی نہ دینے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بھارت کشمیر کا اصل مسئلہ چھپانا چاہتا ہے۔ یہ سارے مسائل کشمیریوں کو ان کے حق سے محروم کرنے کے سبب ہیں اگر دنیا کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا چاہتی تو آسانی سے کر لیتی۔ اسے مطالبات کی ضرورت نہیں پڑتی۔ امریکا جس چیز کو درست سمجھتا یا قرار دیتا ہے اس کے مطابق فیصلے کر ڈالتا ہے۔ اس نے عراق پر حملہ کیا، افغانستان پر حملہ کیا، دنیا کے 14 اسلامی ملکوں میں اس کی فوج برسرپیکار ہے۔ سلامتی کونسل نے کسی ملک کو اس کی اجازت نہیں دی امریکا نے خود فیصلہ کیا اور جہاں چاہا کود گیا۔ عمران خان، امریکا یا عالمی برادری سے یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ کشمیر کو آسان نہ لیں۔ ارے کشمیر سے زیادہ آسان تو کوئی کیس نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد بھی موجود ہے اور کشمیریوں کا فیصلہ بھی۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مدعی سست ہے۔ ہمارے حکمران ہی ہمت سے عاری ہیں، بلکہ سب مل کر اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب بھارت وہاں ہندوئوں کی تعداد مسلمانوں کے برابر کر لے گا۔ ویسے بھی مسلمانوں کو پابند کرکے چند لاکھ کشمیریوں سے بھی استصواب میں اپنے حق میں ووٹ ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ خوامخواہ دنیا کو خوفزدہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب امریکا کو افغانستان، عراق، شام، فلسطین وغیرہ میں جنگ کا خوف نہیں تھا تو کشمیر میں کیوں خوف دلایا جا رہا ہے۔ جس دن بھارت کو کشمیر میں جنگ کا خوف تو دور کی بات ہے شائبہ بھی ہوگیا اس دن کشمیر میں صورتحال بدلنا شروع ہو جائے گی۔