ڈیڑھ اینٹ کی مسجد!

333

مشرقی پاکستان بنگلادیش کیوں اور کیسے بنا؟ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اپنے اعزاز سے کیوں محروم ہوئی۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ اب بھی وطن عزیز میں ایسے بدنصیب لوگوں کی کمی نہیں جو مزید سقوط کی سازشیں کررہے ہیں۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اتنے بدظن، اتنے بدگمان نہیں ہوئے تھے کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد پر اصرار کرتے، اصل مسئلہ یہ تھا کہ مغربی پاکستان کا حکمران طبقہ ان کے دماغوں پر بھی حکمرانی کرنے کا خواہش مند تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگ فطرتاً جمہوریت پسند اور اسلام کے شیدائی ہیں وہ اسلام کے خلاف کوئی بات سننے کے روادار تھے نہ جمہوریت کے نام پر شخصی حکومت کے حامی تھے۔ مغربی پاکستان سے بدگمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کیا گیا کہ ہمارا سارا بجٹ مشرقی پاکستان کھا جاتا ہے اگر ہم لوگ ان کی مالی امداد بند کردیں تو خوش حالی ہمارے قدم چومے گی۔ ادھر مشرقی پاکستان کے لوگوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ مغربی پاکستان ان کا استحصال کررہا ہے وہاں کارخانے لگائے جارہے ہیں، ترقیاتی کام کیے جارہے ہیں، بیرونی ممالک سے ملنے والی امداد مغربی پاکستان کے سیاست دان ہڑپ کرجاتے ہیں، ان کی نظر میں ہماری حیثیت افرادی قوت سے زیادہ نہیں، بعض اشیائے ضروریات مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جاتے جاتے بہت مہنگی ہوجاتی تھیں، اصل قیمت سے کئی گنا بڑھ جاتی تھیں، کیوں کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان ایک ہزار میل کا طویل فاصلہ تھا۔ مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے بارہا کہا کہ ایسی اشیائے ضروریات جن کی قیمت بھارت سے لینے میں سستی ہے۔ بھارت سے خریدنے کی اجازت دی جائے مگر مغربی پاکستان کے حکمران طبقے کے لیے یہ خسارے کا سودا تھا کیوں کہ یہاں سے جانے والی اشیا سے ان کے ناجائز مفادات وابستہ تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگ اور وہاں کے ہندو اساتذہ اور دانش وروں نے اس معاملے کو نمک مرچ لگا کر اس طرح بیان کیا کہ بنگالی مغربی پاکستان کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سکھوں کو اپنے مذہبی مقامات پر آنے کے لیے ویزہ کی جھنجھٹ سے نجات مل گئی ہے۔ حالات بتارہے ہیں کہ عنقریب ہندو بھی اس رعایت سے فیضیاب ہونے لگیں گے۔ گویا ویزہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے ضروری قرار دیا جائے گا مگر یہ بڑے لوگوں کے معاملات ہیں وہی بہتر جان سکتے، بہتر انداز میں سوچ سکتے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ہارون آباد کے لوگوں نے اس بنیاد پر ٹی وی فیس دینے سے انکار کردیا تھا کہ ان کے ٹی وی پر پی ٹی وی دکھائی نہیں دیتا وہ بھارتی ٹی وی چینل دیکھتے ہیں ہمیں خدشہ ہے کہ مہنگائی اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو سرحدی علاقوں کے لوگ چائے کی پتی اور دیگر مصنوعات اسمگل ہو کر افغانستان کے راستے پاکستان آتی ہیں اور ستر سے اسّی فی صد سستی ہوتی ہیں۔ عوام کو آج بھی یہ بات یاد ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھارت نے یہ پیش کش کی تھی کہ وہ سائیکل 250 روپے میں اور بائیک 5000 روپے میں پاکستان میں فروخت کرنے کی سہولت دے سکتا ہے۔ جنرل ضیا الحق تو تیار ہوگئے تھے مگر صنعت کاروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والوں نے حکومت کو باور کرایا کہ ایسا کرنے سے پاکستانی صنعتیں تباہ ہوجاتیں، ملک میں بے روزگاری کا ایسا طوفان آئے گا جو ہر چیز کو بہا لے جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان کو لٹیرے کی رٹ لگانے سے فرصت ملے تو سوچیں کہ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات دلانا ان کی اولین ذمے داری ہے، مگر اس ذمے داری کو نبھانے میں ناکام ہوچکے ہیں سو، ان کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرکے کسی اور کو موقع دیں ورنہ تاریخ انہیں کچر دان میں ڈال دے گی کیوں کہ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، تعویز بھی بے اثر ہوجاتے ہیں۔