آئین چھوڑیں‘ صحیفہ تھام لیں

280

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے معاملہ آسان کردیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آئین کوئی صحیفہ نہیں۔ جمہوری عمل کا تسلسل ضروری ہے۔ ہم بل پاس نہیں کراسکے۔ آئینی ترامیم کیسے کرائیں گے۔ شہزاد اکبر نے شکوہ کیا کہ سول سروسز زوال کی طرف گامزن ہیں لہٰذا اداروں کی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وہ پارلیمنٹ آئین اور جمہوریت کے مستقبل کے حوالے سے مکالمے میں بات چیت کررہے تھے۔ جناب شہزاد اکبر بھی اسی ٹیم کا حصہ ہیں جو ایک تان اٹھتے ہی قوالی شروع کردیتی ہے۔ تان وزیراعظم اٹھاتے ہیں اور پھر سب تالیاں پیٹتے ہوئے قوالی شروع کردیتے ہیں۔ بہرحال شہزاد اکبر نے درست بات کردی ہے کہ آئین دستاویز ہے صحیفہ نہیں۔ ان کی آسانی اور اطلاع کے لیے عرض ہے کہ 1973ء میں جو آئین بنایا گیا تھا اور 1948ء میں اس کے ابتدائیے کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا وہ آپ جیسے لوگوں کی آسانی کے لیے تھا کہ جو کچھ صحیفے میں ہے اس کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکے گی۔ بالآخر قانون صحیفہ (قرآن) ہی ہوگا۔ اب شہزاد اکبر اور صحیفے کے بارے میں آنا کانی کرنے والوں کو یہ دستاویز قبول نہیں تو آگے بڑھ کر صحیفہ اٹھالیں اس صحیفے میں سب کچھ لکھا ہے۔ جو کچھ کرنا ہے اور جو نہیں کرنا۔ کس سے دوستی کرنی ہے اور کس سے لڑنا ہے۔ اس صحیفے میں بہت واضح طور پر لکھا ہے کہ سود حرام ہے۔ اس کا لین دین بند کردو۔ جو مال اس حکم کے وقت تک سود پر دے چکے ہو اس کا اصل زر وصول کرلو اور بقیہ معاف کردو۔ اس حکم کے بعد بھی جو لوگ سود لیں اور دیں گے وہ اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار رہیں۔ صحیفے کا حکم ہے کہ جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔ فاسق ہیں۔ کافر ہیں۔
شہزاد اکبر دستاویز کے مقابلے میں صحیفے کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ صحیفے کو سمجھتے کس حد تک ہیں۔ کل تک ہمارے حکمران آئین کی بالادستی کی بات کرتے تھے اب اسے محض دستاویز قرار دے رہے ہیں۔ جس صحیفے سے انہوں نے موازنہ کیا ہے اس میں تو عہد کی پابندی کا بھی حکم ہے اور کہا گیا ہے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ شہزاد اکبر صاحب اس صحیفے کی روشنی میں یہ بھی جانتے ہوں گے کہ دوسروں کا احتساب کرنے سے پہلے خود اپنا احتساب بھی کروانا ہوتا ہے۔ پوری اسلامی تاریخ حکمرانوں کے احتساب سے بھری پڑی ہے۔ لیکن کیا شہزاد صاحب بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جاری احتساب کسی اعتبار سے بھی منصفانہ ہے۔ دستاویز کے اعتبار سے یا صحیفے کے اعتبار سے۔ موجودہ احتساب کو دونوں ہی اعتبار سے ناقابل اعتبار ہے۔ ہمارے صدر مملکت نے بڑے بڑے دعوئوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ اقتدار میں آنے سے قبل اور خزانے کی صورت حال دیکھنے سے پہلے کے تھے۔ اب کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے میرے بیان کو توڑ مروڑ کر نشر کیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کو چائے خانہ بھی قرار دیا ہے۔ جناب آپ کے رہنما پارٹی لیڈر وزیراعظم تو فرما رہے تھے کہ اسی چائے خانے کی بدولت یعنی سوشل میڈیا کی بدولت وہ حکومت میں آئے۔ عجیب مذاق ہے۔ اُدھر چائے والا حکمران یہاں چائے خانے والے۔
بہرحال شہزاد اکبر صاحب اپنی بات کو ریاست مدینہ کی بات کرنے والے وزیراعظم تک پہنچائیں اور آئین کو دستاویز قرار دے کر ایک طرف کریں اور صحیفے پر عمل شروع کریں بہت جلد پاکستان میں اور خود اپنے اندر تبدیلی محسوس کریں گے۔ وزیراعظم صاحب نے تو قوم کو صحیفے والی اخروی فلاح کا نسخہ بھی تھمادیا ہے۔ انہوں نے ڈیووس میں یہ فرمایا کہ سب جنت میں جانا چاہتے ہیں لیکن کوئی مرنا نہیں چاہتا۔ بات تو ان کی درست ہے۔ چناں چہ وزیراعظم نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ پاکستان کو بڑی مشکل سے ایک دیدہ ور ملا ہے اس کی باتیں سونے کے پانی سے لکھنے کے قابل ہیں اگر سونا اتنا مہنگا نہ ہوتا تو ہم بھی ان کی باتیں اس سے لکھتے۔ دنیا کے مشکل ترین مسائل کا آسان ترین حل چاہیے تو عمران خان صاحب سے پوچھ لو۔ معیشت کے لیے انڈے، کٹے اور مرغیاں، بھینسیں وغیرہ۔ لیکن بہت محدود ہے یہ سب کچھ۔ اب مدینہ کی ریاست کے دعوے دار نے ابدی سکون اور کامیابی کا نسخہ جنت جانے کا انہوں نے بتادیا ہے کہ اس کے لیے مرنا پڑے گا اور نہایت خوبی سے وہ قوم کو مارنے پر تل گئے ہیں۔ قومی معیشت کا بیڑہ غرق، آٹا غائب، چینی غائب، گھی تیل بھی غائب۔ ٹیکس دینے والوں پر مزید ٹیکس، ہر چیز مہنگی، بس ایک شکوہ ہے، فیصل آباد سے خبر آئی ہے کہ وہاں وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق لوگوں نے مرنا شروع کردیا تھا لیکن قبریں مہنگی ہوگئی ہیں۔ فیصل آباد میں تو 15اور 20 ہزار کو لوگ مہنگا کہہ رہے ہیں کراچی میں تو 50 ہزار سے ایک لاکھ تک بھائو ہیں۔ عمران خان صاحب لوگوں کو مرنے میں ہی آسانی دے دیں۔ شہزاد صاحب دستاویز یا صحیفے میں سے کوئی نسخہ نکالیں تا کہ لوگ آسانی سے مر تو سکیں۔