پچاس سال قبل یہ شعر سنا تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ میر تقی میر کا ہے، واللہ اعلم بالصواب:
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا
اس شعر میں شر سے بچنے کا حکیمانہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ اگر آپ کسی برائی کو روکنا چاہتے ہیں، تو برائی میں مبتلا ہونے اور اس کے مہلک اثرات ظاہر ہونے کے بعد آہ وفُغاں کرنے سے بہتر ہے کہ پیش بندی کرلی جائے، انگریزی کا محاورہ ہے: ’’Prevention is better than cure‘‘، یعنی پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ سو شاعر نے مشورہ دیا ہے کہ اگر آپ کو پروانے کی جان بچانی ہے اور اس کے قتلِ ناحق کے الزام سے بچنا چاہتے ہیں تو شہد کی مکھی کو باغ میں گھسنے نہ دیں، کیونکہ جب شہد کی مکھی باغ میں جائے گی تو پھلوں، پھولوں، کلیوں اور پتوں کا رس چوسے گی اور واپس اپنے چھتے پر آکر اُسے اگل دے گی، اس سے شہد بھی بنتا ہے اور موم بھی، جب موم بنتا ہے تو اس سے شمع جلتی ہے اور جب شمع جلے گی تو لازم ہے کہ پروانہ بھی آئے گا اور اس طرح وہ شمع کی لو میں جل کر فنا ہوجائے گا، لہٰذا اگر پروانے کی زندگی چاہیے تو اس کی موت کے اسباب کا سدِّباب کیجیے۔
شریعت نے بھی دفعِ مُنکَرات کا فلسفہ، حکمت ِ عملی اور تدبیر یہی بتائی ہے، حدیث ِ پاک میں ہے: سیدنا نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ؐ نے فرمایا: حلال امور بالکل واضح ہیں اور اسی طرح حرام امور بھی واضح ہیں (یعنی ان میں کوئی ابہام نہیں ہے)، لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ (غیر واضح) امور ہیں، جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے (اور دھوکا کھا جاتے ہیں)، پس جو شخص مشتبہ امور سے بچا رہا، اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو مشتبہ امور میں مبتلا ہوگیا تو اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو ممنوع چراگاہ کے اردگرد اپنے مویشی چراتا ہے اور ہمیشہ اس بات کا خدشہ رہتا ہے کہ اس کے مویشی کھیت میں جا گھسیں گے (اور اسے تاراج کردیں گے)، خبردار رہو! ہر بادشاہ کی کچھ ممنوع حدود ہوتی ہیں، سنو! اللہ کی زمین پر اس کی ممنوع حدود اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، سنو! بے شک جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسمانی نظام درست رہتا ہے اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو پورا جسمانی نظام بگڑ جاتا ہے، سنو! گوشت کا وہ لوتھڑا دل ہے، (بخاری)‘‘۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خطرات کے قریب جانا بجائے خود ایک خطرے کی علامت ہے۔
آپ ایسے تمام لوگوں کا جائزہ لیں جو چوری چکاری، بدکاری، نشہ بازی (ہیروئن، کوکین، شراب، چرس، بھنگ، افیون، سگریٹ، شیشہ، آئس،گُٹکا وغیرہ) میں مبتلا ہیں، پہلے پہل ان کا ارادہ ارتکابِ جرم کا نہیں ہوتا، وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس میں اتنی کشش کیوں ہے کہ لوگ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ وہ بندگلی ہے جہاں داخل ہونے کا راستہ تو ہوتا ہے، لیکن واپسی کا راستہ نہیں ہوتا اور زندگیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سادگی میں کسی گینگ یا مافیا کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو اپنے آپ پر بھی اُن کا اپنا اختیار باقی نہیں رہتا، اُن کی لگام کسی اور کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے، نفسیاتی خوف کے نتیجے میں یہ بات اُن کے دل ودماغ میں پیوست ہوجاتی ہے کہ اب اُن کی بقا کا راز انہی کے ساتھ جڑے رہنے میں مضمر ہے، وہ اسی کو اپنا آخری ٹھکانا بھی سمجھتے ہیں اور وہ اتنے بے رحم ہوتے ہیں کہ جو اُن کے حصار کو توڑنا چاہے، اُسے اس طرح نیست ونابود کرد یتے ہیں کہ نشان بھی نہیں ملتا۔
ہم اسلام کی تعلیمات پر غور کریں تو ابتدائے آفرینش سے ہمارے خالق ومالک رب تبارک وتعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لیے یہی حکمت پسند فرمائی، کیونکہ وہ انسان اور اس کی فطرت کا خالق ہے، وہ اس کی خوبیوں اور خامیوں، قوت وضُعف اور استعداد کو بہتر جانتا ہے، پس اس کی حکمت نے چاہا کہ آدم وبنی آدم برائی سے دور رہیں۔ چنانچہ جب آدم وحوا کو جنت میں داخل کیا گیا تو انہیں یہ نہیں فرمایا: ’’اس درخت کو نہ کھانا‘‘، بلکہ فرمایا: ’’تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، (البقرہ: 35)‘‘۔ اسی حقیقت کو نبی کریم ؐ نے ’’مشتَبہات‘‘ کے عنوان سے بیان فرمایا ہے، کیونکہ درخت کا پھل وہی کھائے گا جو اس کے قریب جائے گا، جو اُس سے کوسوں دور رہے، اس کے دل میں کبھی اس کی طلب بھی پیدا نہیں ہوگی۔ انسان کے ’’عَدُوٌّ مُبِیْنٌ‘‘ اور ازلی دشمن شیطان نے آدم وحوا کو بہکانے اور لغزش دینے کے لیے یہی حربہ استعمال کیا اور کہا: ’’تمہارے ربّ نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے روکا ہے کہ تم (اس کا پھل کھاکر) فرشتے بن جائو گے یا تمہیں دائمی زندگی مل جائے گی، (الاعراف: 20)‘‘۔ کھلے دشمن کو پہچاننا تو آسان ہوتا ہے، انسان اس سے بچائو کے لیے کوئی تدبیر بھی اختیار کرلیتا ہے، لیکن اس کا سب سے خطرناک دشمن وہ ہے جو خیرخواہ اور ہمدرد کے روپ میں آکر شکار کرتا ہے، ابلیس بھی آدمؑ وحواؑ کے پاس ہمدرد کے روپ میں آیا، اسی کو فارسی محاورے میں ’’مارِ آستین‘‘ کہا گیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس نے قسم کھا کر ان دونوں کو یقین دلایا کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں، (الاعراف: 21)‘‘، اس کو انگریزی میں ’’Well wisher‘‘ کہتے ہیں۔
قرآنِ کریم نے اس کے سارے دَجل اور مکر وفریب کا ہدف ان الفاظ میں بتا دیا: ’’پھر شیطان نے دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ اُن کا سَتر جو اُن سے مخفی رکھا گیا تھا، اُسے ان کے لیے منکشف کردے، (الاعراف: 20)‘‘۔ دوسرے مقام پر فرمایا: ’’اس نے ان دونوں کو دھوکے سے بہکادیا، سو جب اُن دونوں نے اُس (ممنوع) درخت کو چکھ لیا تو اُن دونوں کی شرمگاہیں بے حجاب ہوگئیں، سو وہ اپنے جسموں کو درخت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے، (الاعراف: 22)‘‘۔ قرآنِ کریم نے آدمؑ وحواؑ کو تخلیق سے لے کر دخولِ جنت، پھر وہاں سے نکالے جانے اور زمین پر اتارے جانے کی پوری داستان کو جابجا مختلف انداز سے بیان فرمایا ہے تاکہ بنی آدم کو اپنے ازلی دشمن کا پتا چل جائے اور اپنی بشری کمزوری کا ادراک بھی ہوجائے، انسان کی اسی فطری کمزوری کو میر تقی میر نے بیان کیا ہے:
میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
آج یہ مظاہر ہم میڈیا کے مختلف شعبوں اور صنعتِ تشہیر میں ہر سو دیکھتے ہیں، ہم اپنے کامن روم اور خواب گاہ میں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ الغرض عریانی، فحاشی، اخلاق باختگی، کشفِ ستر، صنفی اور جنسی اشتہا کی اشتعال انگیزی شیطان کا ایسا حربہ ہے جو دلکشی، دلربائی اور فریبِ نظر کی مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے اپنی تمام تر بربادیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے، یہ ابلیس کی کوئی نئی ایجاد نہیں ہے، یہی حربہ روزِ اول سے چلا آرہا ہے، اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے، جتنی خود آدم وبنی آدم کی تاریخ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جائو، خواہ وہ ظاہر ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، (الانعام: 151)‘‘۔ نیز بے حیائی اور بے غیرتی کے آخری درجے کی بابت فرمایا: ’’اور زنا کے قریب نہ جائو، بے شک یہ بے حیائی (کی انتہا) ہے اور بُرا راستہ ہے، (بنی اسرائیل: 32)‘‘۔ قرآن وسنت میں جرمِ زنا کے لیے عبرت ناک سزائیں مقرر کی گئی ہیں، لیکن شریعت کی روح یہ ہے کہ زنا میں مبتلا ہونے کا تصور ہی ایمان کی نفی ہے، حدیثِ پاک میں ہے: ’’نبی ؐ نے فرمایا: ایمان کی حالت میں زانی زنا نہیں کرتا، شرابی شراب نہیں پیتا، چور چوری نہیں کرتا، ڈاکو ڈاکا نہیں ڈالتا کہ ڈاکا زنی کے وقت لوگ اس کی جانب نظریں اٹھا کر دیکھتے رہ جائیں، (بخاری)‘‘۔ محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح میں تفصیلی کلام کیا ہے، مگر اس کی روح یہ ہے کہ جب انسان ان خَرابات وخُرافات میں مبتلا ہوتا ہے تو اس سے ایمان کا نور اٹھ جاتا ہے، کیونکہ ایمان اور یہ کالے کرتوت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔
زنا میں مبتلا ہونا تو بہت دور کی بات ہے، اسلام نے اس کے محرّکات اور اسباب سے بھی بچے رہنے کی تعلیم دی ہے، حدیثِ پاک میں ہے: نبی ؐ نے فرمایا: اللہ نے ہر بنی آدم کے لیے زنا میں سے اس کا حصہ لکھ دیا ہے، وہ اسے لازماً پائے گا، پس آنکھ کا زنا (شہوت بھری) نظر سے دیکھنا، زبان کا زنا (جنسی لذت کی) باتیں کرنا اور (ان محرکات سے متاثر ہوکر) نفس (بدکاری کی) تمنا اور خواہش کرتا ہے اور (آخری مرحلے میں) شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کرتی ہے، (بخاری)‘‘، یعنی یا تووہ آگ کے اس الائو میں کود جاتا ہے اور اگر توفیقِ الٰہی شاملِ حال ہو، خشیتِ الٰہی کی بیڑیاں اس کے قدموں میں پڑ جائیں، تو بچ جاتا ہے، حدیثِ پاک میں سات ایسے طبقات کا بیان ہے، جن پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی رحمت کا خصوصی سایا فرمائے گا، جبکہ اس کے سائبانِ رحمت کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی، ان میں سے ایک کے بارے میں آپ نے فرمایا: ’’ایسا (خوش نصیب) شخص کہ اُسے ایک حسین (اور) باحیثیت عورت نے دعوتِ گناہ دی (اور گناہ پر دسترس کے باوجود اس کے قدم رک گئے) اور اس نے کہا: مجھے اللہ کا خوف ہے، (بخاری)‘‘۔
خلاصۂ کلام یہ کہ سَمع، بصَر اور لَمس یہ تمام حسّیات (Senses) بدکاری کا دروازہ (Gateways) ہیں، جو دروازے کے قریب جائے گا، اس کا ممنوعہ گھر میں داخل ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، لہٰذا اس برائی میں مبتلا ہونے سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ان محرّکات واسباب سے دور رہے۔ یہی شعار قرآنِ کریم نے دیگر احکام کے بارے میں اختیار فرمایا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اپنے ماں باپ کو اُفّ تک نہ کہو اور جھڑکو نہیں اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو، (بنی اسرائیل: 23)‘‘۔ مقامِ غور ہے کہ جب ماں باپ کو اذیّت وآزار کے لفظ سے خطاب کرنے کی ممانعت ہے، تو جسمانی یا روحانی اذیت پہنچانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آئے روز ہم میڈیا پر جو مظاہر سنتے اور دیکھتے ہیں تو قرآن کی حکمت سمجھ میں آتی ہے کہ فسق وفجور کی راہوں کو کھلا رکھا گیا تو اس میں مبتلا ہونے سے بچنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس حکمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔