خان صاحب کی فضیلت اسی مہنگائی سے ہے

495

 فراق نے کہا تھا:
موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
اب پتا چلا زندگی کا علاج قبر ہے۔ خان صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ قوم ان کے سکون کے لیے دعا گو ہے۔ اللہ انہیں جلداز جلد سکون سے ہمکنار کرے۔ آمین، ثم آمین، آمین ثم آمین۔۔۔۔ مین۔ زندگی گزر گئی عذاب قبر کے بارے میں تقریریں سنتے اب پتا چلا قبر سے کیا ڈرنا، قبر تو بڑے سکون کی جگہ ہے۔ پورے ملک میں جس شدت کی سردی پڑ رہی ہے ہمیں ڈر ہے خان صاحب یہ تلقین کرنے نہ بیٹھ جائیں کہ جہنم میں جائو وہاں سردی کم لگے گی۔ ایک بات ماننی پڑے گی خان صاحب جدھر نظر کرتے ہیں برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔ پہلے ڈیتھ سرٹیفیکٹ کے 300روپے چارج کیے جاتے تھے، خان صاحب کے بیان کے بعد قبر میں ڈالنے کی تصدیق بھی 1200 روپے کی ہوگئی۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک ننھی سی قبر کے کتبے پر لکھا ہے ’’ماما کی پری، پاپا کا جن یہاں سورہا ہے‘‘۔ یہیں خوشبو کے سفر پر نکلی پروین شاکر کی قبر پر تحریر ہے:
عکس خوشبو ہوں، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جائوں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
مستقبل میں تحریک انصاف کی قبر پر ممکن ہے یہ لکھا ہو:
جب زیست پہ ہوتے ہیں ترانے ممنوع
جب کار سرود موت کرتی ہے شروع
تب ہوتی ہے تحریک انصاف طلوع
اور خود عمران خان کے کتبے پر:
کیوں نہ لپٹ کر سوئوں تجھ سے اے قبر
قوم کو رلا کے بسایا ہے تجھے
سردی میں جس چیز نے ماحول کو گرما گرم رکھا ہوا ہے وہ ہے آٹے کی عدم دستیابی اور بڑھتی ہوئی قیمتیں۔ سنا ہے پچھلے دنوں خان صاحب نے کسی یوٹیلیٹی اسٹور کا دورہ کیا تھا کہ کوئی چیز سستی تو نہیں رہ گئی۔ ممکن ہے انہیں آٹا سستا لگا ہو۔ شہباز شریف نے پوچھا ہے حکومت بتائے کہ گندم کا اسٹاک کہاں گیا؟ پورا کشمیر چلا گیا حکومت کو پتا نہ چل سکا شہباز آٹے کی بات کررہے ہیں۔ مکان، دکان، کاروبار اور مزدوری ختم کرنے کے بعد انصاف کا تقاضا تھا کہ آٹا ختم اور تنور بھی بند کیے جائیں۔ سو، تحریک انصاف کی عظمت کو سلام سیکڑوں تنور بند ہو چکے ہیں۔ ان کے بند ہونے سے جو گیس بچے گی اس سے معیشت کا پہیہ چلے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوم ابھی تک خان صاحب کے ویژن کا ادراک نہیں کرسکی۔ شہباز شریف کسانوں سے گندم 1300 روپے من خرید کر آٹا 38روپے کلو دے رہا تھا۔ یہ کرپشن کی بدترین صورت تھی جس سے تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا تھا۔ اب خان صاحب وہی گندم 1300 روپے من خرید کر آٹا 70روپے کلو دے رہے ہیں۔ اس سے تجارتی خسارہ راتوں رات کم ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کا قرضہ ختم ہوجائے گا۔ قوم سڑکوں پر کھڑے ہوکر گائے گی: تحریک انصاف شاد باد۔۔
کئی برس پہلے بھارتی فلم اسٹار جیکی شیروف نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: غریبی کا زمانہ تھا۔ ماں، بھائی اور میں ایک ہی کمرے میں سوتے تھے۔ کوئی کھانستا بھی تھا تو دوسرے اٹھ کر اس کا حال پوچھ لیتے اور پانی پلاتے تھے۔ پھر میں نے پیسے کمائے اور ماں کو الگ بیڈ روم دے دیا۔ یوں ہمارے درمیان دیواریں آگئیں۔ میرے اور ماں کے درمیان دیواریں کھڑی ہو گئیں۔ ایک رات ان کو ہارٹ اٹیک ہو گیا۔ میں سوتا رہا۔ وہ انتقال کرگئیں۔ مجھے صبح پتا چلا۔ اگر دیواریں نہ ہوتیں۔ ماں کھانستی، میں اٹھ کر دیکھتا، اس کو سہارا دیتا، اس کو اسپتال لے جاتا، بچانے کی کوشش کرتا، شاید وہ بچ جاتی۔ پیسے کمالیے تو بیچ میں دیواریں آگئیں اور رشتے چلے گئے۔
یہ کہانی صرف جیکی شیروف کی نہیں ہے۔ پاکستان میں بھی لاکھوں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو پچھتاووں میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کی وجہ گزشتہ حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ میاں نواز شریف جو چور اور ڈاکو تھے انہوں نے کسانوں کے زیراستعمال رہنے والے ٹیوب ویل پر بجلی 70فی صد کم کردی تھی۔ میاں صاحب نے کرپشن کی حد کرتے ہوئے ڈی اے پی کھادکی ایک بوری کی قیمت 4400 روپے سے کم کرکے 2300 روپے کردی تھی اور یوریا کھاد کی قیمت 2700 روپے سے کم کر کے 1200 روپے۔ اس کے علاوہ میاں صاحب نے کسانوں کو بے دریغ قرضے بھی دیے۔ اس کے نتیجے میں جس المیے نے جنم لیا اسے یاد کریں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ 2017 میں پاکستان میں گندم کی بمپر فصل ہوئی تھی۔ 2کروڑ 70لاکھ ٹن۔ اندازہ لگائیے کتنے کسان خوش حال ہوئے ہوں گے، کتنی دیواریں کھڑی ہوئی ہوں گی، کتنی مائیں ان دیواروں کے بیچ گھٹ کر مرگئی ہوں گی۔ خان صاحب ان دیواروں کو گرانے کے لیے لائے گئے ہیں۔ دیواروں کو گرانے کا آغاز انہوں نے ملک بھر کے شہروں سے کیا۔ تجاوزات کے نام پر غریبوں کے جھونپڑے، گھر، دکانیں اور پتھارے مسمار کرائے۔ اب کسانوں اور دیہاتیوں کی باری ہے جو نہ جانے دیواریں گرنے کے لیے کب سے خان صاحب کی راہ تک رہے تھے۔ اب کسی کی ماں خوش حالی کے سبب نہیں مرے گی۔ ماں کا غم خان صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے۔
روٹی کے چکر میں فیصل واوڈا کی بوٹ دکھائی رہ گئی۔ فیصل واڈا کی اس بدتمیزی پر نجانے لوگ کیوں معترض ہیں۔ بچے بڑوں کو دیکھ کربد تمیزہوتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں جو بڑے کرتے ہیں۔ لوگوں کو نجانے پروگرام میں بوٹ لانے پر اعتراض ہے یا بوٹ میز پر رکھنے پر۔ ہم سے پوچھیں تو بوٹ کی اصل جگہ سویلین کے سر ہیں۔ قوم کے ذہنوں پر، آئین پاکستان پر عدالتوں پر سب پر بوٹ سوار ہے۔ اس پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ بوٹ پروگرام میں لانے سے سب پریشان ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بوٹ کہاں نہیں ہے۔ بوٹ انفرادی سطح پر فرد کا قد تین چار انچ بڑھادیتا ہے اور اجتماعی سطح پرقوم کو ان بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے جہاںقوم پیچھے قطاروں میں اور حکومت آگے نکل جاتی ہے۔
صاحبو ! آج کل ہمارا عجب حال ہے۔ لیپ ٹاپ کھولا تو ارادہ تھا اس مسافر پر لکھیں گے جو اللہ کرے خیریت سے اوکاڑہ پہنچ گیا ہو۔ اوکاڑہ پوسٹنگ سے پہلے وہ جس عہدے پر تھا وہاں ٹوئٹر جنگ میں اس نے دشمن کی ڈھیروں ڈھیر لاشیں گرادیں تھیں۔ اس کے ٹوئٹر دلائل کے آگے بھارتی اداکارہ اور پاکستانی خاتون اینکر تو کیا اچھے اچھے لاجواب ہوجاتے تھے۔ وہ ٹو ئٹر پر کشمیر فتح کرنے والا ہی تھا کہ تبادلہ کردیا گیا۔ ایکسٹینشن پر حق تو اس کا بھی تھا۔