مشرق وسطیٰ کا یہ کیسا امن منصوبہ ہے کہ جب وہائٹ ہائوس میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یا ہو کی موجودگی میں صدر ٹرمپ نے یہ منصوبہ پیش کیا تو اس وقت فلسطینیوں کا کوئی رہنما یا نمائندہ موجود نہیں تھا جن کی ترقی اور خوشحالی کا دعویٰ اس منصوبے میں کیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے یہودی داماد کوشنر پچھلے تین سال سے یہ منصوبہ تیار کر رہے تھے، سوال یہ ہے کہ یکایک اس وقت یہ منصوبہ پیش کیے جانے کا یہ ڈراما کیوں رچایا گیا۔ اس سوال کا جواب ہر ایک پر واضح ہے۔ اس وقت ایک طرف صدر ٹرمپ پر مواخذے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ ٹرمپ نے ارض فلسطین اسرائیل کی جھولی میں ڈال کر امریکا کی با اثر یہودی لابی کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ان کے خلاف مواخذہ کامیاب نہ ہو سکے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سنگین سیاسی بحران میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف سنگین بدعنوانیوں کی فرد جرم پارلیمنٹ کنیسہ میں پیش کی گئی ہے اور انہیں اگلے پانچ ہفتے بعد عام انتخابات کا سامنا ہے۔ صدر ٹرمپ نے انہیں جتانے کے لیے یہ امن منصوبہ پیش کیا ہے جس میں دریائے اردن کا سارا مغربی کنارہ اسرائیل کی تحویل میں دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے اور اس علاقے کا سیکورٹی کنٹرول بھی مکمل طور پر اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ علاوہ ازیں ارض فلسطین پر تعمیر شدہ ایک سو سے زیادہ یہودی بستیاں بھی اسرائیل میں ضم کر دی جائیں گی۔ امن منصوبے میں فلسطین کی ’’آزاد‘‘ مملکت کے قیام کا وعدہ کیا گیا ہے لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوسکے گا جب کہ فلسطینی اسرائیل کو یہودی مملکت کے طور پر تسلیم کرلیں۔ امن منصوبہ کے تحت فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس آنے اور اپنے گھروں میں آباد ہونے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ امن منصوبہ پیش کرتے وقت ٹرمپ اور نیتن یاہو نے منصوبے کے بارے میں ایسے متضاد بیانات دیے جن سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ منصوبہ نرا کھوکھلا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یروشلم، اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رہے گا لیکن اسی کے ساتھ مشرقی یروشلم کے بعض علاقوں پر مشتمل فلسطینیوں کا دارالحکومت ہوگا۔ ایک طرف امن منصوبے کے تحت فلسطین کا ایک بڑا علاقہ اسرائیل میں ضم کردیا جائے گا لیکن ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ فلسطین کی مملکت کے قیام کے نتیجے میں فلسطینیوں کا علاقہ دوگنا ہو جائے گا۔ اس جادو کی انہوں نے وضاحت نہیں کی۔
ٹرمپ نے صدر منتخب ہونے کے بعد فلسطینیوں کو رام کرنے اور ان پر دبائو ڈالنے کے لیے مالی پیشکش کے حربے استعمال کیے ہیں۔ فلسطینیوں پر دبائو ڈالنے کے لیے انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے امدادی پروگراموں کی مالی امداد میں تخفیف کی ہے اور اب امن منصوبہ کے تحت فلسطینیوں کو اگلے دس سال کے دوران پچاس ارب ڈالر کی رشوت پیش کی ہے۔ گو ٹرمپ نے
وعدہ کیا ہے کہ دو مملکتوں کے قیام کی تجویز کے تحت ایک آزاد فلسطینی مملکت کے قیام میں مدد دی جائے گی لیکن امن منصوبے میں فلسطینی علاقوں کو غیر فوجی علاقے قرار دینے کی جو شق ہے اس کے پیش نظر یہ کہنا کہ فلسطینی مملکت آزاد اور خود مختار ہوگی، محض خام خیالی ہوگی۔ مقصد دراصل فلسطین کی مملکت کے نام پر فلسطینیوں کو الگ الگ چھوٹے علاقوں میں بانٹنا ہے۔ جنوبی افریقا کی پرانی نسلی بستیوں کی بنیاد پر۔ وہائٹ ہائوس میں جب یہ امن منصوبہ پیش کیا جارہا تھا تو صرف تین عرب ممالک، بحرین، متحدہ عرب امارات اور عُمان کے سفیر موجود تھے۔ ان ملکوںکے اسرائیل کے ساتھ صلح کے سمجھوتے ہیں اور سفارتی تعلقات استوار ہیں۔ ویسے بھی ان ملکوں کا فلسطین سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔اس موقع پر فلسطینیوں کی بے کسی اور بے بسی حاوی تھی اور وہ آوازیں خاموش تھیں جو پچھلے ستر برس کے دوران مراکش سے لے کر یمن تک فلسطینیوں کے حق کے لیے شب و روز بلند رہتی تھیں اور یہی فلسطینی تھے جن کے نام پر مشرق وسطیٰ میں جنگیں لڑی گئیں اور شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
2003 میں عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے کے بعد فلسطینیوں کی حمایت کا سورج آہستہ آہستہ غروب ہونا شروع ہوا تھا۔ عراق جو اسرائیل کے سامنے ایک بڑا فوجی محاذ تھا فلسطینیوں کی حمایت کا بھی ایک مضبوط گڑھ تھا۔ عراق کی جنگ کے دوران، عراق ہی سے اسرائیل اسکڈ میزائل کے حملوں کا نشانہ بنا تھا۔ اب جب صدر ٹرمپ نے فلسطین کے وجود کے خاتمے کے لیے نام نہاد امن منصوبہ پیش کیا ہے عرب دنیا میں نہ تو کوئی غصہ ہے اور نہ کوئی ناراضی ہے، صرف بے کسی اور بے بسی کا احساس چھایا ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اردن میں خاموشی طاری ہے جس سے ملحق غرب اردن کی وادی امن منصوبے کے تحت مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کرنے کی تجویز ہے۔ لبنان بھی خاموش ہے جہاں حزب اللہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے پیش پیش رہتی تھی۔ ریاض میں بھی خاموشی ہے جہاں ایک زمانے میں فلسطینیوں کے حق میں آواز گونجتی تھی۔ آج ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس پر خوش اور نازاں ہیں کہ صدر ٹرمپ کے داماد کوشنر ان کے بے حد قریبی دوست ہیں جنہوں نے امن منصوبہ تیار کیا ہے۔ ولی عہد اب کھلم کھلا کہتے ہیں کہ فلسطینی مالی اور سیاسی بوجھ بن گئے ہیں اور ان پر سرمایہ کاری فضول ہے۔ اب ان کی ساری توجہ ایران کے خلاف معرکہ آرائی کی طرف ہے جس میں اسرائیل مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔ قاہرہ بھی خاموش ہے جو ایک زمانہ میں فلسطینیوں کی جدو جہد کا اہم محاذ تھا۔ ایک زمانہ میں فلسطینیوں کی آزادی کی جدو جہد میں ہندوستان پیش پیش تھا لیکن جب سے وہاں نریندر مودی کی قیادت میں ہندوتوا کی گرفت سخت ہوئی ہے فلسطینیوں کی حمایت کی جگہ اسرائیل کے ساتھ یک جہتی نے لے لی ہے۔ البتہ پاکستان میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اور فلسطینیوں کی آزادی کے لیے نعرے بلند ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی محض علامتی حیثیت ہے۔