بلوچستان کے حکومتی اتحاد کے اندر یقینا کامل اتفاق رائے موجود نہیں ہے کہ مخلوط حکومتیں مشروط چلتی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس وزارت اعلیٰ ہے گویا یہ جماعت حکومت لیڈ کررہی ہے۔ تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی، پی این پی اور جمہوری وطن پارٹی اس کا حصہ ہیں۔ تحریک انصاف بلوچستان کے صدر جو وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی بھی ہیں نے جنوری کو وزارت کا حلف اُٹھالیا۔ انہیں اعلیٰ اور ثانوی تعلیم کے محکموں کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ مخلوط حکومتوں میں اعتراضات، گلے شکوے، مزید مانگنا اور نقد و جرح ہوتا رہتا ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ جام کمال نے خصوصاً عبدالقدوس بزنجو کے خلاف کوئی محاذ کھولا اور نہ ہی ان کی راہ میں مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ عبدالقدوس بزنجو صوبے کے تیسرے بڑے منصب پر فائز ہیں۔ یعنی بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال کے خلاف حکومت بننے کے ساتھ ہی اُلجھنے اور بگاڑ کی راہ اپنائی۔ اسمبلی اجلاسوں میں غیر فعالیت، جا بجا جام کمال کے خلاف بولنا، لاہور، اسلام آباد اور کراچی جاکر میڈیا پر جام حکومت کی ناکامی، کمزوری، حتیٰ کہ ان کی ذات پر بولتے رہتے ہیں کہ کسی طرح جام کمال کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹایا جائے۔ چار و ناچار بعض حکومتی اراکین اور خود جام کمال کو اس طرز عمل پر بولنا پڑا۔ جس کے بعد عبدالقدوس بزنجو
نے اسمبلی میں وزیراعلیٰ جام کمال خان، سینیٹر سرفراز بگٹی اور وزیر خزانہ ظہور بلیدی کیخلاف تحریک استحقاق جمع کرادی کہ ان کا استحقاق مجروح کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ حالانکہ خود عبدالقدوس بزنجو بارہا جام کمال خان کا استحقاق مجروح کرچکے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں جام کمال ان کے دوست اور اچھے انسان ہیں، لیکن وزارت اعلیٰ کے قابل نہیں۔ کبھی کہا کہ انہیں بیورو کریٹ ہونا چاہیے تھا، جام میں کسی کمپنی یا ادارے کے چیئرمین کی صلاحیت تو ہے وزیراعلیٰ بننے کی نہیں وغیرہ۔ حالاں کہ قدوس بزنجو پارٹی اور کابینہ کے فورم سے ہٹ کر مہم چلا رہے ہیں کہ انہیں حزب اختلاف اور اپنی جماعت کے ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ سی ایم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا شو شا چھوڑا۔ اور کہا کہ بلوچستان کے عوام جلد جام حکومت سے نجات کی خوشخبری سنیں گے۔ جبکہ عوام کی رائے و منشا برعکس ہے۔ وہ مسائل کے حل اور معیار زندگی کی بہتری کے آرزو مند ہیں۔ انہیں اس محلاتی سیاست سے کوئی سروکار نہیں بلکہ اسے گند اور بری خبر سمجھتے ہیں۔ حزب اختلاف کے قائد ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے بھی شوخی دکھائی کہ قدوس بزنجو حکومتی اراکین میں سے دس ارکان حزب اختلاف کے چیمبر لے آتے ہیں، تو حزب اختلاف کے23ارکان جمہوری حق ادا کرنے میں دیر نہیں کر یں گے۔
جمعیت علماء اسلام ف اور بلوچستان نیشنل پارٹی پچھلی حکومت میں ’’باپ‘‘ والوں کی حلیف رہی ہیں۔ گویا صوبے کی یہ حکومت ان کے سہارے اور تعاون کا ثمرہ ہے۔ ان دو جماعتوں اور اے این پی نے نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خلاف مقتدرہ کا ساتھ دے کر حکومت گرا دی۔ اور پھر بلواسطہ عبدالقدوس بزنجو کی چھ ماہ کی حکومت میں حصہ دار بن گئیں۔ بلوچستان اسمبلی میں پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کا اکلوتا رکن حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ پشتون خوا میپ اور نیشنل پارٹی نواب زہری کی حکومت کا حصہ تھیں۔ عبدالقدوس بزنجو اور بعض اراکین اسمبلی پشتون خوا ملی عوامی پارٹی سے انتہائی بغض عناد رکھتے تھے۔ لہٰذا پشتون خوا میپ کے رکن نصر اللہ زیرے اور نواب زہری کی سازشی سیاست میں حصہ داری معیوب و پست اقدام سمجھا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگرجام کمال خان منظر سے ہٹ بھی جائیں تو وزیراعلیٰ کون ہوگا۔ یقینا کوئی بھی تبدیلی ’’باپ‘‘ کے اندر ہی سے ہوگی۔
یعنی حزب اختلاف کے پلے کچھ پڑنے والا نہیں۔ اورگزشتہ چھ ماہ کی حکومت میں افرا تفری، بدنظمی، صوبے کی بے توقیری عوام کے حافظہ سے محو نہیں ہیں۔ جہاں یہ وزیراعلیٰ ہائوس میں آپس میں لڑ پڑتے، ایک دوسرے کو طعنے دیتے، برا بھلا کہتے۔ لہٰذا اس صوبے کو مزید بے حیثیت و بے توقیر نہ کیا جائے۔ حالت تو یہ ہے کہ آفات جیسی حالیہ برفباری میں بھی دیکھا گیا کہ وفاق نے یہاں کے مسائل، جانی و مالی نقصان کو پرکاہ برابر اہمیت نہ دی۔ جام کمال خان کو وفاق کے خلاف بولنا پڑا۔ ڈاکٹر عبدالمالک نے ایک موقع پر کہا کہ بحیثیت وزیراعلیٰ سی پیک کے کسی معاہدے پر ان کے دستخط نہیں ہیں۔ گویا اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی صوبہ خود مختار نہیں ہے۔ حکومت میں افراتفری اور کشمکش کی سیاست رہی یا اگرصوبہ غیر موزوں افراد کے حوالے ہو تو یقینا رہی سہی کسر و حیثیت بھی نہ رہے گی۔ اور پھر بزنجو اپنے دعوے میں راست ہو تے تو قطعاً سینیٹ چیئر مین صادق سنجرانی اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو بیچ میں نہ لاتے۔ جو اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی بھنک پڑ تے ہی فوراً اسلام آباد پہنچ گئے۔ بہر حال سینیٹر میر سرفراز بگٹی نے درست کہا کہ ’’عبدالقدوس بزنجو اسپیکر کے عہدے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر آپ وزیراعلیٰ جام کمال خان کے خلاف مہم چلانا چاہتے ہیں تو اسپیکر کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں‘‘۔ غرض بلوچستان اسمبلی کے اندر حزب اختلاف ان شوخیوں سے اپنا دامن بچا کے رکھے۔