کراچی میں متنازع اراضی اور متبادل کے بغیر بے دخلی پر عالمی بینک کا اعتراض ،فنڈنگ روکنے کا اشارہ

70

کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) کراچی کو مجموعی طور ترقی دینے کے بڑے منصوبوںکے لیے عالمی بینک نے تجاوزات اور اسے ہٹانے کے حوالے سے بڑا اعتراض کرکے فنڈنگ روکنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کے بعد سندھ حکومت اور بیورو کریسی میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ تاہم سندھ کی بیورو کریسی کا اصرار ہے کہ ان چاروں منصوبوں پر کام جاری ہے ، ان کے لیے عالمی بینک کی اس شرط کے باوجود کہ بینک کسی ایسے منصوبے پر فنڈنگ نہیں کرسکتا جس کے لیے لوگوں کو وہاں کی اراضی سے بے دخل کیا گیا ہو اور انہیں کوئی متبادل جگہ فراہم نہیں کی گئی ہو۔ “جسارت ” کو اس حوالے سے عالمی بینک کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چیئرمین پلاننگ و ڈیولپمنٹ بورڈ محمد وسیم کی صدارت میں چند روز قبل ہونے والے اجلاس میں جس میں ورلڈ بینک کنٹری ڈائریکٹر الانگو پیچاموٹو ( Illango Patchamuthu ) ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ مسٹر گانگمنگ یان، اربن ڈیویلپمنٹ اسپیشلسٹ، انفرااسٹرکچر اسپیشلسٹ مسڑکرس، سینئر انوائرمنٹ اسپیشلسٹ مسٹر ٹاکیاکی اور مسٹر جیان زی، ایکسٹرنل افیئرز آفیسر مہرین سعید،اور ایس ڈبلیو ایم کنسلٹنٹ مسٹرتھیری ، سیکرٹری بلدیات روشن شیخ ، کمشنر کراچی افتخار شہلوانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ اجلاس میں ورلڈ بینک کے منصوبوں کراچی نیبرہوڈ امپرومنٹ پروجیکٹ ( کے این ائی پی ) کمپٹٹیو اینڈ لائیوبل سٹی آف کراچی ( کلک ) پروجیکٹ اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج امپرومنٹ پروجیکٹ ( کے ڈبلیو ایس آئی پروجیکٹ ) کی پروگریس ان پر حائل مسائل پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر الانگو پیچاموٹو ( Illango Patchamuthu ) نے منصوبوں کی راہ میں آنے والی تجاوزات اور ان تجاوزات کے خاتمے کے نتیجے میں عام لوگوں کو پیدا ہونے والی شکایات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کیا عالمی بینک کسی ایسے پروجیکٹ پر فنڈنگ نہیں کرسکتا جس کی اراضی یا مقامات متنازع ہو یا وہاں سے تجاوزات وغیرہ ہٹاکر متاثرین کو متبادل جگہ نہیں دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ مذکورہ ان تمام منصوبوں پر عالمی بینک 652 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے پر تیار ہوچکا تھا جس میں کلک پروجیکٹ پر 230 ملین ڈالر ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ ( کے ڈبلیو ایس ایس آئی پی ) پر 160 ملین ڈالر اور کراچی نیبرہوڈ امپرومنٹ پروجیکٹ ( کے این آئی پی ) 250 ملین ڈالر خرچ کرنے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک کے نمائندے کی طرف سے اس شرط کی وضاحت پر اجلاس میں موجود سندھ حکومت کے افسران حیران و پریشان ہوگئے تاہم انہوں نے عالمی بینک کے نمائندوں کو یقین دلایا کہ وہ بینک کی شرائط کے مطابق ہی منصوبوں پر عمل درآمد کرایا جائے گا۔ لیکن اس پر عالمی بینک کے وفد نے کوئی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اس ضمن میں جسارت نے جب نے جب چیئرمین ، منصوبہ بندی و ترقیات بورڈ محمد وسیم سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک یہ چاہتا ہے کہ جہاں ان کی فنڈنگ ہو وہاں عوامی مسائل نہ پیدا ہو اور نہ ہی عام لوگوں کی رہائشی سہولیات کا نقصان ہو۔ اس وجہ سے ہم نے یہ طے کیا ہے کہ جہاں سے بھی رہائشی مکانات وغیرہ کا ہٹایا جائے گا انہیں لیاری ایکسپریس وے کی طرح متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عالمی بینک کے آسان قرضے سے پورے کراچی کے نظام کوبہتر بنانے کا منصوبہ ہے جس پر کام جاری ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ اس پروجیکٹ کی مدت کا اندازہ 4 سال لگایا گیا ہے ۔ محمد وسیم نے بتایا کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے کراچی کے پانی ، سیوریج ، سڑکوں ، صفائی ستھرائی اور دیگر مسائل حل ہوجائیں گے اس طرح کراچی کا نقشہ تبدیل ہوجائے گا۔