عوامی نمائندوں کی بے حسی

314

یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ وزیرا عظم عمران خان نیازی کے بعد اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو بھی اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ مہنگائی میں بے انتہا اضافہ ہوگیا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث موجودہ تنخواہ میں گزارا ممکن نہیں رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ کئی اراکین پارلیمنٹ جو عوامی نمائندہ ہونے کے دعویدار ہیں ، عوامی مصائب کو ختم کرنے یا کم کرنے کی سعی کرنے کے بجائے محض اپنی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے ۔ عمران خان کے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوا اور اس گرانی سے مقابلہ کرنے کے لیے تنخواہ میں کتنا اضافہ ضروری ہے ، ا س کا اندازہ سینیٹ میں سینیٹروں کی جانب سے تنخواہوں میں اضافے کے لیے پیش کیے جانے والے بل سے کیا جاسکتا ہے ۔ اس بل میں اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ کو دگنا کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی ۔اس بل کے محرک اگر اپنی تنخواہ میں اضافے کے ساتھ تمام عوام کی تنخواہوں کو دگنا کرنے کی تجویز پیش کرتے تو اسے یقینا سراہا جاتا مگر ان اراکین نے یہ بات ثابت کی کہ انہیں عوام اور ان کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تنخواہوں میں اضافے کے لیے تو محرکین کی یہ دلیل پھر بھی تسلیم کی جاسکتی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے ان کا گزارا ممکن نہیں ہے حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے ۔پاکستان کا موجودہ انتخابی نظام کچھ اس طرح کا ہے کہ نصف ارب روپے سے زیادہ ہی انتخابی مہم پر اخراجات آتے ہیں ۔ جو لوگ نصف ارب روپے کے قریب محض رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لیے خرچ کرتے ہیں ، ان پر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ان کی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے ہے یا تین لاکھ روپے ۔ تنخواہ میںگزر نہ ہونے کا شکوہ کرنے والوںکے مطالبات تو اس سے بہت آگے کے تھے ۔ بل میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بذریعہ سڑک سفر کی صورت میں اراکین پارلیمنٹ کو 25 روپے فی کلومیٹر سفری الاؤنس دیا جائے اور بیرون ملک دوروں میں فرسٹ کلاس ایئر ٹکٹ بھی دیا جائے۔بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کو 25 فرسٹ کلاس و بزنس کلاس ایئر ٹکٹ فراہم کیے جائیںیہ ٹکٹ اراکین پارلیمنٹ کی اہلیہ، شوہر یا بچے بھی استعمال کر سکیں گے۔بل میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 25 ہزار روپے سے بڑھا کر سپریم کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ 8 لاکھ 79 ہزار روپے کے برابر مقرر کرنے کی تجویز دی گئی تھی ۔ اسی طرح ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 1 لاکھ 85 ہزار روپے سے بڑھا کر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کی بنیادی تنخواہ 8 لاکھ 29 ہزار روپے کے برابر کرنے کی تجویز تھی پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہوں کو الگ سے الائونس بھی ملتا ہے۔ جماعت اسلامی نے پہلے سے ہی اس بل کی مخالفت کا اعلان کیا تھا جبکہ پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے بھی اس کی مخالفت کی جس کی وجہ سے یہ بل سینیٹ میں 16 کے مقابلے میں 29 ووٹوں سے مسترد کردیا گیا ۔ اراکین پارلیمنٹ کے لیے تنخواہ اور مراعات میں زبردست اضافے کے بل کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں ایم کیو ایم پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، پی کے میپ، جمعیت علمائے اسلام (ف) ، نیشنل پارٹی اوراے این پی شامل ہیں۔بل کی حمایت کرنے والی ساری ہی پارٹیاں اپنے آپ کو غریب اور متوسط طبقے کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں ۔ ایم کیو ایم کا تو دعویٰ ہی یہی تھا کہ وہ دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے خلاف ہے اور 98 فیصد عوام کی نمائندہ جماعت ہے مگر اس بل کی حمایت کرتے ہوئے ایم کیوایم کے نمائندے 98 فیصد عوام کی حالت زار کو یکسر بھول گئے۔ جمعیت علمائے اسلام خلافت راشدہ کے قیام کی داعی ہے مگر اس کے اراکین تنخواہ کے بل کی حمایت میں یہ بھول گئے کہ خلیفہ اول سیدنا ابوبکر نے اپنی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر مقرر کی تھی ۔ جب ان کی توجہ تنخواہ کے قلیل ہونے کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر اس میں گزارا نہ ہوا تو پھر مزدور کی تنخواہ میں اضافہ کردیا جائے گا ۔ بلوچستان عوامی پارٹی، اے این پی اورپختون خوا میپ کمیونزم کی حامی رہی ہیں جس کے تحت عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے ۔ سینیٹ میں پیش کردہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش کرتے وقت کسی ایک رکن سینیٹ نے یہ نہیں کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں نئے اسپتال بنانے کے بجائے سرکاری اسپتالوں سے مفت طبی سہولتیں ہی واپس لے لی گئی ہیں ، کسی نے اس طرف توجہ نہیں دلائی کہ نئے تعلیمی ادارے قائم کرنا تو درکنار ، پہلے سے موجود تعلیمی ادارے محض اس لیے زبوں حالی کا شکار ہیں کہ سرکار انہیں منظور کردہ گرانٹ بھی فراہم کرنے کو تیار نہیں ہے ، کسی نے بھی یہ نہیں بتایا کہ سرکار نے ملازمین کی جو اجرت مقرر کی ہے ، اس میں پارلیمنٹ میں موجود کوئی ماہر ہی گھریلو بجٹ بنا کر دکھا دے تو اسے نوبیل انعام دیا جائے گا ، کسی نے بھی آئے دن پٹرول ، گیس ، بجلی اور اشیائے ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں کی طرف بھی اشارہ نہیں کیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ عوام کے کتنے قریب ہیں اور وہ عوامی مسائل کا کتنا درد رکھتے ہیں ۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے، ایسے میں عوام اگر مایوسی کا شکار ہو کر انتہاپسندوں کے ہاتھ میں کھیلنے لگیں تو اس پر اچنبھا نہیں ہونا چاہیے ۔ اصولی طور پر اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں گریڈ 17 کے ملازم سے زاید نہیں ہونی چاہییں ۔