امریکا افغانستان اور قربانیوں کا بوجھ

255

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد ایک بار پھر پاکستان کا دورہ کر گئے ہیں یہاں انہوں نے سول اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں ایک اہم ملاقات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ہوئی ہے۔ ان ملاقاتوں کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے اس امید کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکا اور طالبان سمجھوتے کے بعد بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموا ر ہوسکتی ہے۔ زلمے خلیل زاد کا دورہ اس بات کا پتا دیتا ہے کہ امریکا میں ایک طاقتور لابی کی مخالفت کے باوجود طالبان کے ساتھ مفاہمت اور مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور اب امریکا اس معاملے میں کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر افغانستان کے کمبل کے موجودہ انداز سے جان چھڑانا چاہتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امریکا ہمیشہ کے لیے اور کلی طور پر اس ملک سے اپنا رخ موڑ نا اور رخت سفر باندھنا چاہتا ہے۔ امریکا کی افغانستان میں موجودگی موجودہ انداز سے تو شاید نہ ہو مگر بین الاقوامی اصولوں اور ضوابط کے مطابق ہوگی یا شاید اس سے کچھ ہی زیادہ۔ اس کی وجہ چین اور روس کی اسٹرٹیجک پیش قدمی ہے۔ بھارت کے لیے تو افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا اور کردار کم ہونے کا تصور سوہان ِ روح ہے۔ امریکا کی خطے میں موجودگی کی آڑ میں بھارت نے افغانستان میں اپنے قدم مضبوط کیے۔ ایک طرف امریکا کو اپنا دامن جنگ کے کانٹوں سے چھڑانے کے لیے پاکستان کی اہمیت کا بہت دیر سے ہی مگر احساس ہوگیا ہے اور افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی مخلصانہ کوششوں کا معترف ایک زمانہ ہے۔
پاکستان نے سترہ برس سے باہم مصروف جنگ طالبان اور امریکا کو ایک میز پر بٹھا کر وہ کام انجام دیا جسے ناممکن نہ سہی مگر مشکل ترین ضرور سمجھا جا رہا تھا۔ افغانستان کے دو طاقتور فریقوں کے مابین مذاکرات سے بات اب جنگ بندی تک پہنچ چکی ہے۔ امریکا کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا کوئی پسندیدہ عمل نہیں رہا۔ امریکا نے ہمیشہ طالبان کو دہشت گرد قرار دے کر افغانستان کے سیاسی افق سے مٹا ڈالنے کی کوشش کی۔ امریکا طالبان کو کچلنے اور صفایا کرنے کے نام پر جو مہم شروع کرتا رہا طالبان اس سے طاقت پکڑتے چلے گئے۔ امریکا کی غلامی کا احساس اور ناقص فوجی پالیسیوں نے طالبان کو معاشرے میں پہلے قبولیت اور بعدازاں مقبولیت عطا کی۔ ملک کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں چلا گیا۔سترہ برس کی مارا ماری کے باوجود جب امریکا طالبان کا وجود نہ مٹاسکا بلکہ ان کے پھیلائو کو روک نہ سکا تو چار وناچار اس نے طالبان سے مذاکرات کا وہ راستہ اختیار کیا جس کی نشاندہی پاکستان برسوں سے کرتا چلا آرہا تھا۔ طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست مذاکرات کی یہ کوشش کابل کے حکمرانوں کو ناگوار گزری۔ بھارت بھی طالبان اور امریکا کے درمیان مفاہمت کے اس عمل سے خوف محسوس کررہا ہے۔ کابل حکومت چونکہ بھارت کے گہرے اثرات کی زد میں ہے اس لیے یہ دونوں کا مشترکہ خوف بن گیا۔ افغان حکومت کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ طالبان اسے تسلیم کرکے ہتھیار پھینک دیں اور پرامن افغانستان کی تشکیل میں اپنا حصہ ڈالیں۔ طالبان افغان حکومت کو امریکی قبضے کی ایک توسیع قرار دے کر اس سے مذاکرات سے انکاری رہے ہیں۔ اس کے برعکس طالبان نے امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کی ہمیشہ حمایت ظاہر کی ہے۔ طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ایک بار افغان حکومت کی مخالفت کی بنا پر ہی ٹوٹ گئے تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے دوبارہ کوششیں کرکے یہ مذاکرات بحال کروائے۔ مذاکراتی عمل کی بحالی کے بعد افغان حکومت مزید بگڑ کر بیٹھ گئی۔ پاکستان کی کوششوں سے افغانستان میں دیر پا امن کے آثار ہویدا ہیں۔
بھارتی اثر رسوخ کی حامل افغان حکومت طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدے کی مخالف ہے اور اسی لیے وہ پاکستان کے خلاف ایسا غیر دوستانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل سے لاتعلق ہو کر بیٹھ جائے۔ ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانوں کی تردید کے وزیر اعظم عمران خان کے بیان کو غلط بیانی قرار دیا اور کہا پاکستان میں اب بھی حقانی نیٹ ور ک کے وابستہ افراد کے ٹھکانے موجود ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم رکن انس حقانی اس وقت طالبان وفد کا حصہ ہیں اور امریکی نمائندے حقانی نیٹ ورک بلکہ حقانی خانوادے کے ایک رکن کے ساتھ براہ راست مذاکرات فرمارہے ہیں۔ وقت اور حالات کے تقاضے بدل جائیں تو پھر یہی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اب پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری پر اشرف غنی نے ٹویٹ کرکے ایک بار پھر غیر دوستانہ غبارہ ہوا میں اُچھال دیا۔ وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ اشرف غنی ہی نہیں حامد کرزئی بھی اس معاملے میں تبصرہ کرنے سے باز نہیں آئے حالانکہ حامد کرزئی اپنے حالیہ دورہ بھارت میں پاکستان کے حوالے سے خاصے محتاط دکھائی دیے انہوں نے بھارتی میڈیا کے اشتعال دلانے کے باوجود پاکستان کے لیے بھائی اور بھارت کے لیے دوست کی اصطلاح استعمال کی۔ وہ کرزئی سے مودی حکومت کے حالیہ اقدامات کی حمایت میں بھی دو بول ادا نہ کرواسکے۔ اس کے باجود پی ٹی ایم کے معاملے پر انہوں نے بھی ٹویٹ کرنا ضروری سمجھا۔
پی ٹی ایم کے مطالبات اور شکایات ریاست پاکستان سے ہیں۔ وہ اس ریاست سے انصاف بھی طلب کررہے ہیں اور مکالمہ بھی کررہے ہیں یا مستقبل میں کر سکتے ہیں مگر باہر کے یہ مہربان اور ہمدرد ان کا اچھا بھلا کیس خراب کردیتے ہیں۔ افغان حکومت جس غیر دوستانہ رویے کا مظاہرہ کرکے پاکستان کے امن وسکون کے درپہ ہے اس کا مقصد افغانستان میں امن کی منزل کو دور کرنا اور امریکیوں کی چھتری کو قائم اور بحال رکھنا ہے۔ خود اعتمادی کی کمی کے باعث وہ اس طرح کمزور سہاروں کی تلاش میں ہے مگر اس کا کیجیے کہ امریکا اب کابل کی حکومت پر ماضی کی طرح سایہ فگن رہنے سے تنگ آچکا ہے۔ کوئی مصلحت اور مجبوری اسے قربانیوں کا یہ بوجھ مزید اُٹھائے رکھنے پر مجبو ر نہیں کر سکتی۔ زلمے خلیل زاد کی بار بار پاکستان آمد امریکا کے بدلے ہوئے مزاج کی عکاس ہے۔