اسلامی تعاون تنظیم نے بھی ٹرمپ منصوبہ مسترد کردیا

307

یہ انتہائی اہم بات ہے کہ عرب لیگ کے بعد اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی فلسطین سے متعلق امریکی منصوبہ مسترد کردیا ہے ۔امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے منصوبہ پیش کرتے وقت پریس کانفرنس میں تین عرب ممالک کے سفراء کی موجودگی اور اس کے بعد سعودی عرب کی جانب سے مجوزہ منصوبے کو خوش آئند قرار دینے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ کہیں عرب ممالک اس اہم ترین مسئلے پر امہ سے کٹ کر علیحدہ نقطہ نظر نہ اپنا لیں ۔ گو کہ او آئی سی کا بلایا جانے والا ہنگامی اجلاس اس لحاظ سے قدرے کمتر درجے کی اہمیت کا حامل تھا کہ یہ اسلامی ممالک کی سربراہی کانفرنس نہیں تھی اور اس میں مسلم ممالک کے مندوبین نے ہی اپنے اپنے ممالک کی نمائندگی کی ۔ اس اہم ترین اجلاس میں ایران موجود نہیں تھا کیوں کہ اس کے مندوبین کو بروقت سفری اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ اگر اس اجلاس میں ایران بھی موجود ہوتا تو او آئی سی میں منظور کی جانے والی قرارداد کا اور بھی بہتر تاثر جاتا ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ امت مسلمہ کے اس اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے سارے ہی اسلامی ممالک نہ صرف مشترکہ موقف اپنائیں بلکہ اس موقف پر اس کی روح کے مطابق عمل بھی کریں۔ اس موقع پر مسلم ملک سوڈان کے رہنما عبدالفتاح کی نیتن یاہو سے ملاقات کو پی ایل او نے پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے جس طرح سے اسرائیلی حکام کی کچھ عرب ممالک میں آؤ بھگت کی گئی ، اس سے پوری مسلم دنیا میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ اگر سارے ہی اسلامی ممالک اسرائیل کا اس وقت تک بائیکاٹ جاری رکھیں ، جب تک بیت المقدس آزاد نہیں ہوجاتا تو اس سے مسلم امہ کے موقف کو تقویت ملے گی ۔ فلسطینیوں نے اپنی جانیں دے کر اس مسئلے کو زندہ رکھا ہوا ہے جس پر وہ تحسین کے مستحق ہیں ۔نہ صرف اسرائیل کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے بلکہ ٹرمپ جیسے اسرائیل نواز سربراہان اور ان کے ممالک کا بھی بائیکاٹ اس مسئلے کے حل میں موثر ہوگا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صدی کی ڈیل جیسے منصوبے کے خالق اور مسلم دشمن ٹرمپ کو سعودی عرب میں ایک ارب ڈالر کے تحائف دیے جاتے رہے ہیں جس سے اس کی یہ ناپاک منصوبہ پیش کرنے کی ہمت افزائی ہوئی ۔ او آئی سی نے ہنگامی اجلاس بلا کر اس میں متفقہ قرارداد پیش کرکے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے ۔ اب اس مسئلے کے مستقل حل کے طریقے کو تلاش کرنے کے لیے سربراہ اجلاس بھی جلد ہی طلب کیا جانا چاہیے ۔ اس سربراہ اجلاس میں مسلم ممالک کو درپیش مسائل لیبیا، عراق ، یمن اور شام میں فوری جنگ بندی اور یہاں کے باشندوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیے جانے کا فیصلہ بھی کیا جانا چاہیے ۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے اور اس پر اس کی روح کے مطابق عمل کرلیا جائے تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بھی خود بخود ختم ہوسکتی ہے ۔ او آئی سی کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے میں تنظیم کے سیکریٹری جنرل پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں ۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل اسی وقت کوئی موثر قدم اٹھا سکتے ہیں جب سارے اسلامی ممالک کے سربراہان کی قوت ان کی پشت پر ہوگی۔