جاوید اکبر انصاری
ٹرمپ اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود امریکی سامراج کو مستقل کمزور کررہا ہے۔ اس کی یہ ناکامی داخلی سطح پر بھی عیاں ہے اور عالمی سطح پر بھی داخلی طور پر امریکی معیشت روزبروز 2008 جیسے بحران کی طرف گامزن ہے اور آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق امریکی شرع نمو 2فی صد سے بھی کم رہے گی۔ بحران کے وقوع کے امکانات کا اظہار تمسکات کی مارکیٹ کے اس حالیہ رحجان سے بھی ہوتا ہے کہ طویل المدت تمسکات پر شرح سود قلیل المدت تمسکات سے مستقلاً کم ہوتی جارہی ہے (یہ رحجان پاکستانی تمسکاتی کاروبار میں بھی اس سال واضح ہوا ہے) اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ کار مستقبل سے مایوس ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے شرح منافع مستقل گررہے ہیں اور سرمایہ کاری اور کاروباری قرضہ جات میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ سرمایہ کاری تقریباً منجمد ہے اور حصص کے کاروبار کے فروغ کا انحصار کلیتاً سٹہ بازی پر ہوگیا ہے۔
امریکی تجارتی حکمت عملی بھی بری طرح ناکام ہے۔ 2019 میں امریکا نے چینی درآمدات پر جو ٹیکس لگائے ان کا پورے کا پورا بوجھ امریکی کمپنیوں اور صارفین پر پڑرہا ہے۔ یہ بات امریکی ادارہ NBER کے ایک حالیہ تحقیقی مقالہ سے واضح ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکا صنعت میں سرمایہ کاری مستقل گررہی ہے۔ چینی برآمدات کی قیمتوں میں کمی واقع نہیں ہورہی لہٰذا اضافی محصولات کا اثر چینی برآمدات پر نہیں پڑ رہا۔ تحقیق کے مطابق چینی برآمداتی محصولات کے مقاطعہ کے نتیجہ میں امریکی صارفین پر 2.5 بلین ڈالر کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ اکتوبر 2019 میں Harvard اور شکاگو یونیورسٹی کی ایک مشترکہ تحقیق سے ثابت کیا کہ ردعمل کے طور پر چین نے جن امریکی درآمدات پر محصولات نافذ کیں ان کا بوجھ امریکی کمپنیوں پر پڑرہا ہے چینی صارفین پر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا اب چین سے تجارتی مصالحتی صلح کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اپنی تجاری جنگ جاری رکھے گا لیکن اب اس جنگ کا رخ مغربی یورپ کی طرف پڑجائے گا۔ فیڈرل بینک آف نیویارک کی ایک تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ امریکا نے یورپی برآمدات پر جو محصولات 2019 میں نافذ کیے ان کا بوجھ یورپی کمپنیوں (بلخصوص اسٹیل اور ایلومینیم کے کاروباریوں) پر پڑرہا ہے۔
ظاہر ہے کہ یورپ سے تجارتی جنگ کا نتیجہ یہ ہوگا کہ امریکی اپنے کلیدی سامراجی حلیفوں سے محروم ہوتا چلا جائے گا۔
سامراجی کمزوریاں: سب سے واضح سامراجی پسپائی کا اظہار ونیزویلا میں امریکی پٹھو جوان گییودو کا وینزوالن مقننہ سے اخراج ہے۔ جنوری 2019 میں امریکا نے اس بدمعاش کو ونیزویلا کے صدر کے طور پر تسلیم کرلیا تھا جنوری 2020 میں اس کو مقننہ سے برطرف کردیا گیا۔ ونیزویلا کے صدر مادورو کو فوج اور عوام کے ایک منظم اسلحہ بند جنگجوں کی حمایت حاصل ہے روس اور چین کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اون نے جنوری 2020 میں اپنے نیوکلر پروگرام کے دوبارہ جاری کرنے کا اعلان کرکے ٹرمپ کی آگ اور غضب (Fire & Fury) کی حکمت عملی کے کھوکھلا پن کو واضح کردیا ہے۔ جزیرہ نمائے کوریا میں امریکی سامراجی گرفت کمزور اور روس اور چینی سامراجی گرفت مضبوط ہوتی نظر آرہی ہے۔
عراق بھی امریکی باجگزاری سے فرار کی راہیں تلاش کررہاہے۔ وہاں کی مقننہ نے امریکی افواج کی اخراج کا مطالبہ کردیا ہے اور امریکا عراق پر دوبارہ قبضہ یا ایران کے خلاف موثر کاروائی کی استطاعت نہیں رکھتا امریکی اشرافیہ مشرقی وسطی میں جنگ چھڑنے کی تقریباً کلی طور پر مخالف ہے اور اس معاملہ میں ٹرمپ اور کانگریس آپس میں دست وگریباں ہیں اور امریکی ریاستی اشرافیہ شدید انتشار کا شکار ہے مستقبل میں امریکا کا عراق سے نکلنا ناگزیر ہوجائے گا اور اس اخراج کے نتیجہ میں ان شا اللہ شیعہ سنی اتحاد فروغ پائے گا۔
مغربی اور وسطی افریقا کے ممالک مالی، کینیا، نائجیریا، صومالیا اور چاڈ امریکی اور فرانسیسی پٹھو حکومتیں مستقل اپنے علاقہ کھورہی ہیں اور الشباب کی قوت عروج پر ہے۔
افغانستان میں ٹرمپ طالبان کو اپنی پٹھو حکومت سے سودہ بازی پر رضامند کرنے میں بالکل ناکام رہاہے اور طالبان کی شرائط پر افغانستان چھوڑدینے کے علاوہ اس کے پاس او رکوئی راہ فرار نہیں۔ ان شا اللہ طالبان افغانستان میں ایک اسلامی انقلابی حکومت قائم کرلیں گے۔
اسباق: یہ صدی امریکی سامراج کے انحطاط اور زوال کی صدی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں شکست وریخت اور تبدیلی مرکزیت کا بڑھتا ہوا رحجان ہے امریکا بتدریج اپنی عالمی عسکری بالادستی کے بوجھ کو سہارنے کی صلاحت سے محروم ہوتا جارہا ہے اور اس کے عسکری قوت کے استعمال سے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد نہیں ہورہے۔ امریکی اہل دانش اشرافیہ کو اس کا بھرپور احساس ہے لیکن اس دانش مند اشرافیہ کے پاس امریکی انحطاط کو ختم کرنے کی کوئی تجویز موجود نہیں۔ وہ محض 1990 کی دہائی (کلنٹن کے دور) کے تجربات کو دہرانا چاہتے ہیں جبکہ ان تجربات کی ناکامی کے نتیجہ میں ہی امریکی تباہی کے دہانے پر پہنچ رہا ہے۔
اس کے برعکس امریکی عوام کو آنے والے بحران کا کوئی احساس نہیں۔ جیسے کہ مشہور فلسفی (Gilles Deleuze) نے کہا ہر امریکی (Schizophrenia)کا مریض ہے اس کے نفس پر غضب اورشہوت کے ابلیسوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ وہ دوبارہ 2020 میں ٹرمپ کو صدر منتخب کرے گا اور امریکی اندرونی اور خارجہ حکمت عملی کے تضادات بڑھتے چلے جائیں گے۔ امریکی ریاستی اشرافیہ کے اختلافات فروغ پاتے رہیں گے اور امریکی پالیسیاں پوری دنیا میں ناکام سے ناکام ترہوتی چلی جائے گی۔
ہوس کی آگ لیے پھر رہی ہے شہردر شہر
سگ زمانہ ہیں یہ ہم اور ان کی حکمت کیا