محکمہ پولیس کو متنازع بنانے کی سیاسی سازش

242

محمد اکرم خالد
کہنے کو کراچی پاکستان کا معاشی حب سمجھا جاتا ہے اور پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بھی یہ شہر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ہی کو لے لیں اس شہر سے ۱۴ قومی اسمبلی کی نشستوں کی بنیاد پر ہی آج عمران خان صاحب برسر اقتدار ہیں جبکہ ۳۵ برس تک اس شہر پر راج کرنے والی متحدہ آج زوال کی جانب گامزن ہے کچھ ایسا ہی حال پیپلز پارٹی کا بھی ہے ۱۲ سال سے پیپلز پارٹی سندھ حکومت پر براجمان ہے مگر اس شہر کے بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے یہ شہر برسوں سے محرومیوں کا شکار ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وفاقی حکومتوں نے کبھی بھی اس شہر کی ترقی وخوشحالی کو سنجیدہ نہیں لیا یہ شہر اور اس کے مسائل ہمیشہ سیاست کی نذر ہوتے رہے ہیں یہ جمہوریت کی نالائقی تھی کہ اس شہر کو ترقی صرف آمریت کے دور میں نصیب ہوئی۔
بد قسمتی سے آج اس شہر کے مسائل سنگین نوعیت اختیار کر گئے ہیں مگر ارباب اختیار کو اس شہر پر رحم نہیں آرہا۔ کراچی پانی کی قلت، سیوریج کے بوسید نظام، نامکمل ترقیاتی منصوبوں اور کچرے کے ڈھیروں کی وجہ سے کچی بستی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اس شہر کے مسائل کو سیاست کی نذر کرتی رہی ہے۔ محترم بلاول زرداری کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے پنجاب کو فتح کرنے اور حکومت کو کبھی گرانے تو کبھی ذاتی مفاد میں سہارا دیتے نظر آرہے ہیں اندرون سندھ کی حالت زار کو تو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ کبھی کسی حکمران کو یہاں آنے کی زحمت گوار ہی نہیں ہوئی چند ماہ پہلے کتے کے کاٹے جانے پر اندرون سندھ سے دس گھنٹوں کا سفر طے کر کے ایک معصوم بچے کو کراچی منتقل کیا گیا جس کی وجہ یہ تھی کے وہاں کوئی ایسا اسپتال موجود نہیں تھا جس میں اس معصوم بچے کی زندگی کو بچایا جاتا کراچی لانے کے بعد بھی یہ بچہ زندگی کی بازی ہار گیا مگر آج بھی اندرون سندھ سمیت کراچی بھر میں آوارہ کتے بچوں کے لیے چلتی پھرتی موت بنے ہوئے ہیں جس پر کتوں کو تو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں اعلیٰ سطح پر سوچا جارہا ہے، مگر انسانوں کی زندگی کے بارے میں پیپلزپارٹی کی قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انسانی زندگی سے زیادہ کتوں کی زندگیوں کو اہمیت دی جاری ہے۔ بدنصیبی کا یہ عالم ہے کہ آج وفاق اور سندھ کی صوبائی حکومت ایک آئی جی کی تبدیلی پر آمنے سامنے ہیں پوری پیپلزپارٹی کی قیادت یکجا نظر آرہی ہے ایک آئی جی کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہونے پر اس کو تو ہٹانے کی بھرپور انداز سے جدوجہد کی جارہی ہے مگر بلاول سندھ حکومت کی خراب کارکردگی پر کیا اپنے وزیر اعلیٰ کو بھی ہٹانے کی جرات کر سکتے ہیں؟ سندھ حکومت ۱۲سال سے کراچی کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے کیا اس نااہلی ونالائقی پر سندھ حکومت مستعفی ہوسکتی ہے۔ یقینا ایسی جرات سیاستدان نہیں کر سکتے البتہ اپنے نیچے کام کرنے والوں کی خراب کارکردگی پر ان سے استعفا لیا جاسکتا ہے ان کو معطل کیا جاسکتا ہے، مگر اپنے خلاف کوئی بات نہیں سنی جاسکتی۔
آئی جی کلیم امام کی خدمات کو وفاق کے سپرد کرنے پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کیوں بضد ہیں دراصل یہی وہ رویہ ہے جس نے اداروں کو متنازع بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے محکمہ پولیس کو ہر دور میں سیاسی تشدد کا نشانہ بنا کر اس ادارے کی ساکھ کو خراب کیا گیا ہے اس رویے نے پولیس کے مورال کو کمزور کیا ہے سیاستدانوں کے اس رویے سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ محکمہ پولیس کو ہمیشہ سیاسی غلام سمجھا گیا ہے اس ادارے کو ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے اس ادارے کو رشوت کا خون لگا نے والے اس ادارے کو کمزور اور متنازع بنانے والے سیاستدان ہی ہیں مگر ہم ہمیشہ سیاسی وابستگی کو نبھاتے ہوئے محکمہ پولیس پر تنقید کرتے رہے ہیں اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جب پولیس کا ادارہ سیاسی بنیادوں پر متنازع بنا دیا جائے گا تو ہم اس ادارے سے بہتر کار کردگی کی اُمید کیسے کر سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور تحریک انصاف کی وفاقی حکومت جن کو کراچی نے اقتدار دیا ہے ان کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ کراچی شہر کے مسائل کو فوری حل کی جانب گامزن کریں اور ساتھ ہی پولیس کا ادارہ جو پہلے ہی اپنی ناقص کارکردگی اور سیاستدانوں کی غلامی کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے اس ادارے پر مزید سیاست نہ کی جائے اگر پنجاب سمیت ملک کے کسی بھی صوبے میں ڈیڑھ سال میں چار آئی جی تبدیل کیے جا سکتے ہیں تو پھر صوبہ سندھ کو یہ حق کیوں حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کا آئی جی لگا سکے اگر وفاق کی جانب سے مسائل کو مزید اُلجھایا گیا تو سیاسی حالت مزید خراب ہوسکتے ہیں اور ساتھ ہی پولیس کا مورال مزید کمزور پڑھ سکتا ہے۔