نمائشی یک جہتی کا اظہار آخر کب تک؟

332

5فروری کو ہر سال اہل پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا دن مناتے ہیں۔ یہ دن مجاہد ملت قاضی حسین احمد کی تجویز پر سب سے پہلے 5 فروری 1990ء کو جماعت اسلامی کے زیر اہتمام پاکستان اور آزاد کشمیر میں جوش و خروش سے منایا گیا تھا۔ اسے قومی سطح پر اتنی پزیرائی حاصل ہوئی کہ حکومت نے اسے اگلے سال قومی تعطیل قرار دے دیا اور اسے سرکاری طور پر منایا جانے لگا، لیکن یہ وہ زمانہ تھا جب مقبوضہ کشمیر جہاد کے نعروں سے گونج رہا تھا اور کشمیری مجاہدین بھارت کی قابض افواج کو ناکوں چنے چبوا رہے تھے۔ دوسری طرف افغان مجاہدین نے افغانستان میں حملہ آور سوویت افواج کو عبرت ناک شکست سے دوچار کرکے انہیں غیر مشروط طور پر ملک سے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے اثرات مقبوضہ کشمیر کے جہاد پر بھی پڑے تھے۔ کشمیری مجاہدین کے حوصلے بلند تھے اور دشمن بُری طرح خوف زدہ تھا۔ بھارتی میڈیا اپنی حکومت کو مشورہ دے رہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اپنی باعزت واپسی کا راستہ تلاش کرے ورنہ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوسکتا ہے جو افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ ہوا ہے۔ اُس وقت پاکستان بھی کشمیری مجاہدین کے ساتھ تھا اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون کررہا تھا۔ پاکستان میں جہادی تنظیموں کو بھی کام کرنے کی آزادی تھی اور ان کے ذریعے کشمیری مجاہدین کو ہر قسم کی امداد مل رہی تھی۔ ایسے میں جب پاکستان اور آزاد کشمیر میں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کا دن منایا گیا تو اہل کشمیر کے حوصلے اور بلند ہوگئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان دل و جان سے ان کے ساتھ ہے وہ اپنا خون بھی پیش کررہا ہے اور اپنا مال بھی اور سیاسی حمایت کے لیے اظہارِ یک جہتی کا دن بھی منارہا ہے۔ یہ دن نمائشی نہیں تھا بلکہ اس نے جوش و جذبے کا ایک سماں باندھ دیا تھا۔ لیکن پھر امریکا میں نائن الیون برپا ہوگیا اور امریکا نے اس کی آڑ میں مسلمانوں اور ان کی آزادی کی مسلح تحریکوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ جنرل پرویز مشرف اُس وقت پاکستان میں برسراقتدار تھے، انہوں نے امریکا کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے دلیل یہ دی کہ اس طرح پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر امریکا کی حمایت حاصل ہوگی اور وہ مسئلہ کشمیر کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرانے میں کامیاب رہیں گے، لیکن پھر دُنیا نے دیکھا کہ امریکا نے مقبوضہ کشمیر میں جاری جہاد کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ کشمیری مجاہدین کی حمایت و پشت پناہی سے ہاتھ اُٹھا لے، جہادی تنظیموں پر پابندی لگادی جائے اور جہاد فنڈ جمع کرنا خلافِ قانون قرار دے دیا جائے۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکا کی تابعداری میں یہ ساری باتیں تسلیم کیں اور ان پر من و عن عملدرآمد کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا اور بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر اسے پوری دُنیا میں بدنام کرنے لگا۔ 5 فروری کو ہر سال یوم یک جہتی کشمیر اس زمانے میں بھی منایا جاتا تھا لیکن یہ نمائشی یک جہتی اہل کشمیر کی حقیقی حمایت سے خالی تھی۔ جنرل پرویز مشرف اپنے پورے دور اقتدار میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف رہے، ان کے زمانے میں بھارت نے کنٹرول لائن پر خار دار باڑھ بھی لگالی تا کہ مجاہدین کی نقل و حرکت کا کوئی امکان باقی نہ رہے اور پاکستان نے بزبانِ خاموشی اس کی تائید کی، حالاں کہ بھارت متنازع علاقے میں خار دار باڑھ لگانے کا مجاز نہ تھا اور پاکستان اس پر شدید احتجاج کرسکتا تھا بلکہ وہ اس باڑھ کو تباہ کرنے کا بھی اختیار رکھتا تھا لیکن پاکستان کی خاموشی نے بھارت کے حوصلے بڑھادیے۔
جنرل پرویز مشرف کی اقتدار سے سبکدوشی کے بعد آصف علی زرداری کی حکومت آئی تو وہ مسئلہ کشمیر کو بیس سال کے لیے منجمد کرنے اور بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات بڑھانے پر زور دیتے رہے۔ زرداری کے دور میں بھارت نواز کشمیری لیڈروں کی بھی پاکستان میں پزیرائی کی گئی جب کہ یوم یک جہتی کشمیر بھی جوش و خروش سے منایا جاتا رہا۔ میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے اور چھور ہی نرالے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ انتخابات میں بھارت سے دوستی کا مینڈیٹ لے کر برسراقتدار آئے ہیں۔ بھارت میں نریندر مودی پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تو میاں صاحب ان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری لیے بغیر نئی دہلی جا پہنچے اور وہاں وہ اداکاروں اور کاروباری شراکت داروں سمیت سب سے ملے، البتہ پاکستانی ہائی کمیشن میں ملاقات کے منتظر کشمیری لیڈروں کے ساتھ ملنے سے کنّی کترا گئے۔ ان کے پورے دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ دوستی کا چرچا رہا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ اپنوں نے ذاتی تعلقات قائم کیے اسے اپنی نواسی کی شادی میں اپنے گھر پر مدعو کیا اور تحفے تحائف وصول کیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا، البتہ ان کے دور میں بھی یوم یک جہتی کشمیر اہتمام سے منایا جاتا رہا لیکن روح سے خالی اور عمل سے عاری یہ یوم اہل کشمیر کے زخموں پر نمک پاشی کرتا رہا۔
اب پاکستان پر عمران خان کی حکومت ہے۔ ان کے دور میں بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے دوسری بار وزیراعظم بننے کے بعد مسئلہ کشمیر کو ختم کرنے کے لیے آخری اور حتمی قدم اُٹھایا ہے، اس نے بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے مقبوضہ علاقے پر کرفیو نافذ کرکے اسے مکمل طور پر لاک ڈائون کردیا ہے، جب کہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کرکے اہل کشمیر کا رابطہ پوری دُنیا سے منقطع کردیا گیا ہے۔ اس عمل کو چھ ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے لیکن پوری عالمی برادری اس صورتِ حال کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے تک رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی اس دوران میں دو مرتبہ ہوچکا ہے لیکن وہ بھی بھارت کو کوئی وارننگ دینے میں ناکام رہی ہے۔ رہا پاکستان تو ابتدا میں کشمیریوں کے لیے اس کا ردعمل بہت حوصلہ افزا تھا، پاکستان نے بھارتی اقدامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اہل کشمیر کو یقین دلایا تھا کہ وہ آخری گولی، آخری سپاہی اور آخری سانس تک ان کا ساتھ دے گا۔ یہ یقین دہانی عسکری اور سیاسی قیادت دونوں کی طرف سے کرائی گئی تھی۔ اس یقین دہانی میں کوئی ابہام نہیں تھا اور مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بجاطور پر اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج عملی طور پر ان کی مدد کو آئیں گی اور انہیں بھارت کے چنگل سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں گی، لیکن یہ محض ان کا وہم ثابت ہوا، پاکستان فوجی کارروائی تو کجا سیاسی و سفارتی مزاحمت کا مظاہرہ بھی نہ کرسکا۔ بھارت کے خلاف جو اقدامات پاکستان کے بس میں تھے ان سے بھی گریز کی راہ اختیار کی گئی اور معمول کے تعلقات میں کوئی خلل نہ ڈالا گیا۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط میں انہیں مشورہ دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں اور سمجھوتوں سے دستبردار ہوجائے لیکن اس مشورے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ آج ہم اہل کشمیر کے ساتھ یک جہتی کا دن اس حال میں منارہے ہیں کہ ہم پر جنگ کا خوف مسلط ہے اور بھارت اس خوف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یہ سوال پھن پھیلائے کھڑا ہے کہ اس نمائشی یک جہتی کا اظہار آخر ہم کب تک کرتے رہیں گے؟