کے الیکٹرک کا راج جاری

289

پاکستان کی عدالتیں،وفاقی و صوبائی حکومت، نیپرا اور تمام ادارے منہ تکتے رہ گئے اور کے الیکٹرک کی نااہلی کا ایک اور ثبوت سامنے آگیا۔ پچھلے نقصانات کا اب تک ازالہ نہیں ہوسکا تھا کہ منگل 4 فروری کی صبح کو معمولی بارش کے نتیجے میں دو جانیں چلی گئیں۔ صبح سویرے اچانک بارش کے نتیجے میں لوگ اس حوالے سے محتاط بھی نہیں تھے اور اس حوالے سے کوئی پیشگوئی بھی باضابطہ نہیں تھی۔دو افراد کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہو گئے چونکہ گزشتہ موسم برسات میں پچاس کے لک بھگ افراد کی کرنٹ سے ہلاکتوں پر جماعت اسلامی کے احتجاج اور عدالت سے رجوع کے باوجود حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ عدلیہ نے جرمانے کا حکم بھی دیا لیکن یہ جرمانہ بھی کم تھا اس کے بارے میں بھی اب تک کوئی واضح اطلاع نہیں ہے۔ اگر کے الیکٹرک کو اس کی نااہلی پر پہلے سزا مل گئی ہوتی اس کے ذمے داران کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی تو کے الیکٹرک کا پورا نظام محفوظ ہو چکا ہوتا۔ یہ کیسا تضاد ہے کہ چند کروڑ یا ارب روپے کی بدعنوانی کے الزام پر تو کسی کو بھی پہلے جیل بھیج دیا جاتا ہے پھر تفتیش ہوتی ہے اور پھر یا تو مک مکا ہوتا ہے یا مقدمہ لیکن 50 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے ذمے داران کے خلاف رسمی سی کارروائی، پانچ کروڑ روپے جرمانہ۔ اتنے پیسے تو وہ ایک چھوٹے سے علاقے کے بجلی کے بل میں ہیر پھیر کرکے حاصل کر لیتے ہیں۔ کے الیکٹرک کی نااہل انتظامیہ کی وجہ سے جانے والی مزید دو جانوں کا حساب کون دے گا؟۔