اب کوئی اور چیمپئن نہ بنے

392

پاکستان کے وزیراعظم کے ایک معاون خصوصی نے وزیراعظم کو چیمپئن بنادیا۔ انہوں نے چین میں پھنسے پاکستانیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ اس مسئلے پر کوئی اور چیمپئن نہ بنے۔ مشکل یہ ہے کہ حکمران کسی مسئلے پر بھی کسی اور کو چیمپئن نہیں بننے دیتے بلکہ اگر کوئی چیمپئن ہے بھی تو اسے نہیں مانتے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا کا حکم سر آنکھوں پر کسی کو چیمپئن نہیں بننا چاہیے۔ لیکن کوئی میدان کوئی کھیل تو کسی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اب تو ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بھینسوں کی باز آمد ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے خواتین کو بھینسیں دینے کا اعلان کردیا ہے۔ یقینا بھینسوں کے حوالے سے بھی کسی اور کو چیمپئن بننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور کوئی بننا بھی نہیں چاہے گا۔ ہمارے کپتان نے تو پاکستان کے مسائل چھوڑ کر سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کرانے کی مہم چلائی تھی اب انہوں نے بتایا ہے کہ امریکا ایران جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے یعنی وہ عالمی امن کے بھی چیمپئن ہوگئے۔ وزیراعظم کے چیمپئن ہونے میں کوئی کلام نہیں وہ ورلڈ کپ کرکٹ کے چیمپئن ہیں۔ وہ 2018ء کے انتخابات سے قبل کے تمام جائزے اور سروے بتارہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) آرہی ہے۔ ووٹ نواز شریف کا ہے لیکن 25 جولائی کو سب کچھ پلٹ گیا اور کسی نے کہا کہ قوم کو ٹیکا لگ گیا ہے کسی نے آر ٹی ایس کو الزام دیا۔ اور بہت ساری باتیں ہوئیں لیکن وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں جب یہ بتایا کہ 2013ء میں جلسے کے موقع پر وہ اسٹیج پر چڑھتے ہوئے لفٹ سے گر گئے تو انہیں
شوکت خانم اسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے انہیں ٹیکا لگایا جس کے بعد ان کے سارے درد ختم ہوگئے۔ عمران خان نے کہا کہ مجھے ایسا لگا کہ کوئی مسئلہ ہی نہیں، وہاں موجود نرسیں مجھے مجھے حوریں دکھائی دینے لگیں۔ پھر میں نے ڈاکٹر سے کہا دوبارہ وہی ٹیکا لگائو اس نے نہیں لگایا۔ میں اس پر غصہ ہوا کہ تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔ لیکن اس نے مجھے دوسرا ٹیکا نہیں لگایا۔ پہلے ٹیکے کے بعد تو میں اتنا ٹھیک ہوگیا کہ میں نے ٹی وی پر بیان بھی دے دیا۔ لیکن مجھے یاد نہیں کیا کہا تھا۔ وزیراعظم تو عمران خان 2018ء میں بنے اس واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم بننے کے لیے صرف اسٹیج سے گرنا کافی نہیں ہوتا۔ مزید گرنا پڑتا ہے۔ دوسری اہم بات بلکہ خان صاحب کا اعتراف سامنے آیا کہ میں نے ٹی وی پر تقریر کردی جو یاد نہیں۔ یقین کیجیے خان صاحب کو تو صبح کہی ہوئی بات شام تک یاد نہیں رہتی۔ کسی نے اس پر تبصرہ کیا کہ گرے ہوئے آدمی کی بات کیا کی جائے۔ جب کوئی گرجاتا ہے تو اس کی بات پر ویسے بھی یقین نہیں کیا جاتا۔ اور وزیراعظم بننے کے لیے جتنا گرنا پڑتا ہے اس کے بعد کون یقین کرے گا، بلکہ اب تو حالت یہ ہے کہ ہر بات پر یوٹرن لیتے ہیں۔ وزیراعظم کے گرنے اور ٹیکا لگنے سے حوریں نظر آنے پر پوری حکومت کے لوگ ڈاکٹر صاحب کو تلاش کررہے ہیں کہ بھائی ایک دفعہ تو ہمیں بھی ٹیکا لگادو۔ اور سیاستدانوں کو ٹیکا لگانے والوں نے شوکت خانم والا ٹیکا تو نہیں لگایا لیکن کئی اہم سیاستدانوں اور وزرا کے ساتھ دو خواتین کی تصویریں بتارہی ہیں کہ ان کو ٹیکا لگ گیا ہے اور وہ ان کو حور سمجھ کر تصویریں کھنچوارہے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا نے تو وزیراعظم کو چیمپئن قرار دے کر دوسروں کو منع بھی کردیا ہے کہ کوئی اور چیمپئن بننے کی کوشش نہ کرے لیکن ملک کی معیشت کا جو حال خان صاحب کی حکومت کررہی ہے اس کے بعد لوگ ٹیکے لگانے والوں کو تلاش کریں گے، لیکن اس مرتبہ ٹیکا لگوانے کے لیے نہیں بلکہ اسے پکڑ کر کہیں گے کہ آخر کیا ضرورت تھی کون سا ٹیکا لگادیا۔ قوم نے تمہارا کیا بگاڑا تھا ڈاکٹر… ڈاکٹر کا جو حال کیا جائے گا وہ یقینا قابل دید ہوگا۔ لوگ تو عمران خان کے ٹیکے کو موضوع بنائے ہوئے تھے اب شہریار آفریدی نے نیا ٹیکا لگا دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ عمران خان کی خواہش ہے کہ چرس سے دوا بنانے والی فیکٹری لگائی جائے۔ چرس سے دوائیں کتنی بنیں گی اور معجون فلک سیر کتنی۔ اس کا اندازہ تو سب کو ہوگا۔ لیکن موصوف نے اس پر بھی بس نہیں کی بلکہ سائیں قائم علی شاہ سے منسوب شوق کے حوالے سے بھی عزائم کا اظہار کیا ہے۔ شہریار نے کہا کہ بھنگ سے تیل بنانے والی فیکٹریاں بھی لگائیں گے۔ اس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ جناب شہریار آفریدی نے یقینا عمران خان کی خواہش کی روشنی میں یہ باتیں فرمائی ہیں اگر ان خواہشات اور عزائم پر عمل ہوگیا تو کیا ہوگا۔ اس کے لیے ہمارے ایک دوست نے جو ڈراما نویس ہیں کچھ سوچا اور یوں لکھا۔
’’مصلے پر بیٹھے ہوئے خان صاحب نے سلام پھیرتے ہی اپنے شہر کے یار کی طرف دیکھا۔ تسبیح پر کچھ پڑھا پھر پوچھا یار شہر میں چرس کی بو کیوں بڑھ گئی ہے۔ شہر یار نے بتایا کہ دوا سازی کے لیے چرس کی کاشت ہورہی ہے۔ خان نے پھر پوچھا۔ کہ کابینہ کیوں سوئی ہوئی ہے۔ شہریار نے بتایا کہ حضور بھنگ سے تیل نکالنے کا تجربہ کیا۔ کامیاب رہا کابینہ کے ہر رکن کو پانچ پانچ لیٹر تیل دیا گیا تھا۔ غلطی یہ ہوئی کہ سب نے اس تیل سے کھانا پکایا اور اب … ظاہر ہے سر یہی ہونا تھا۔ خان نے مصلّٰی لپیٹا تسبیح جیب میں رکھی اور کہا۔ شہریار۔ میرے لیے بھی دس لیٹر تیل اور دوا ساز کارخانے کے خام مال کا بندوبست کیا جائے۔ اور شہریار نے یہ کام امور کشمیر کے وزیر کے حوالے کردیا۔ سب سے زیادہ فارغ وہی نظر آیا اسے‘‘۔ یہ صورت حال بتارہی ہے کہ اب صرف کابینہ اور حکمران ہی نہیں پوری قوم کو چرس پلا کر چرسی اور بھنگ پلا کر بھنگی بنانے کا منصوبہ ہے۔ جواب نہیں وژنری لیڈر کے وژن کا۔ پھر مقابلے ہوں گے چرس کا چیمپئن، بھنگ کا چیمپئن اور ڈاکٹر ظفر نے کہا ہے کہ کوئی اور۔