مزید ٹیکس لگانے کی تیاری

337

مزید ٹیکس لگانے کے لیے آئی ایم ایف کا حکومت پاکستان کو املا جاری ہے ۔ ملک میں محصولات جمع کرنے والا ادارہ ایف بی آر ابھی تک اپنے ہدف سے تین سوارب روپے کم جمع کرسکا ہے اور اندیشے ہیں کہ 30 جون کو مالی سال کے خاتمے تک یہ خسارہ نو سوارب روپے سے زاید ہوجائے گا ۔ حکومت پاکستان نے چونکہ ملک کا معاشی نظام آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے ، اس لیے حکومت پاکستان کی ٹیم آئی ایم ایف کے آگے گھٹنوں کے بل جھکی ہوئی ہے اور التجا کررہی ہے کہ محاصل جمع کرنے کا ناممکن ہدف کم کیا جائے ۔ پاکستان ایک خودمختار ریاست ہے مگر اس کی خودمختاری کو ارباب اختیار نے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے ہاتھوں گروی رکھ دیا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست کے معاملات چلانے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے اور ان فنڈز کے حصول کا ذریعہ محاصل کے سوااور کچھ نہیں ہے تاہم محاصل عاید کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں پر بلاواسطہ محاصل کا تناسب بیس فیصد سے بھی کم ہے جبکہ بالواسطہ محاصل کا تناسب 80 فیصد سے زاید ہے ۔ یعنی 80 فیصد سے زاید محاصل چند ہزار روپے ماہانہ کمانے والا اور کروڑوں روپے ماہانہ کمانے والا یکساں طور پر ادا کرتے ہیں ۔ پوری دنیا میں یہ تناسب اس کے الٹ ہے یعنی 80 فیصد کے قریب محاصل بلاواسطہ محاصل سے جمع کیے جاتے ہیں اور بقیہ بیس فیصد کے قریب بالواسطہ محاصل سے جمع کیے جاتے ہیں ۔ یہ بات بھی اب کوئی راز نہیں رہی ہے کہ عمرانی حکومت کے دور میں معاشی سرگرمیوں میں زبردست سکڑاؤ آیا ہے ۔ جب ملک میں معاشی سرگرمیاں ہی نہیں ہوں گی تو حکومت کو محاصل کہاں سے ملیں گے ۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کے کارندوں کا دباؤ ہے کہ ٹیکسوںمیں اضافہ کیا جائے ۔ درآمدات مسلسل کم ہورہی ہیں اور برآمدات پر محاصل لگائے نہیں جاسکتے کہ اس سے برآمدات کی لاگت میں اضافہ ہوگا تو پھر حکومت کے پاس محاصل کہاں سے جمع ہوں گے ۔ لے دے کر گیس ، بجلی اور پٹرول جیسی چیزیں بچتی ہیں ۔ ان پر پہلے ہی محاصل کا زبردست دباؤ ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پٹرول ، بجلی ، کھاد اور گیس کمپنیاں ہی حکومت کی سب سے بڑی ڈیفالٹر ہیں ۔ یعنی یہ عوام سے تو سرکار کے نام پر محاصل جمع کرتی ہیں مگر نہ تو اپنی آمدنی پر عاید محصول سرکار کے کھاتے میں جمع کرواتی ہیں اور نہ ہی وہ محصول جو سرکار کے نام پر عوام سے ان کمپنیوں نے بطور امانتدار وصول کیا ہوتا ہے ۔ یہ اسی مالی سال کی بات ہے کہ حکومت نے ایسی کمپنیوں کو ساڑھے سات سو ارب روپے کے محصول کی معافی دی ہے ۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ گیس ، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا پورا فائدہ سرکار کو نہیں پہنچتا بلکہ جس تناسب سے سرکار کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ، عین اسی تناسب سے ان کمپنیوں کے منافع میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یعنی عوام کی جیبوں پر سب ہی مزے کرتے ہیں ۔ آئی ایم ایف کی کوشش ہوتی ہے کہ پٹرول ، گیس اور بجلی جیسی اشیاء کے نرخوں میں ہی اضافہ کیا جائے کہ اس سے سرکار تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا مگر عوام کی بدحالی میں ضرور اضافہ ہوجاتا ہے یہ بات بھی اب راز نہیں رہی ہے کہ گیس ، بجلی اور پٹرول کی کمپنیاں کسی بھی ملک کی نہیںہوتی ہیں بلکہ کثیر القومی کمپنیاں ہوتی ہیں جن کے حصص آئی ایم ایف اور عالمی بینک میں بھی ہیں ۔ اسی طرح آئی ایم ایف اور عالمی بینک محض مالیاتی ادارے نہیں ہیں بلکہ ان کے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں اور یہ مالیاتی ہتھیار کو اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کیا کررہے ہیں ۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمراں کیا کررہے ہیں اور کیوں وہ ملکی سلامتی پر سودے بازی کررہے ہیں ۔