اہلیت کا بحران!

260

تحریک انصاف جب سے برسراقتدار آئی ہے ملک مختلف بحرانوں کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو عوام کے لیے خوش آئند ہو۔ آنے والا ہر دن کوئی نہ کوئی عذاب لے کر طلوع ہوتا ہے مہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے وعدے عشوہ طراز محبوب کے وعدے بن گئے ہیں۔ حکومت نے برسراقتدار آنے سے قبل انتہائی دل رُبا اور پُرکشش وعدے کیے تھے مگر اس کا منشور دل آزاری کے سوا کچھ نہیں، گھر اور روزگار دینے کا عہد کرنے والی حکومت نے عوام کو بے روزگاری، بے گھری اور مہنگائی کا تحفہ دیا ہے پر صاحب اختیار ٹانگ پر ٹانگ دھرے عوام کی مشکلات سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ دکان دار اور ریڑھی والے اپنی مرضی کے نرخ وصول کررہے ہیں۔ کل ایک دوست ملنے آئے تو کہا ’’یار! مہنگائی کے خلاف بھی کچھ لکھو، اپنی آنکھیں کھول کر دیکھو‘‘۔ آپ نے جو دیکھا ہے وہ منظر ہمیں بھی دکھائو‘‘۔ کہنے لگے۔ شہر میں شلجم 60 روپے کلو بک رہے ہیں، ون یونٹ میں تیس روپے اور یہاں بیس روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔ ہم نے کہا بھائی صاحب آنکھیں کھلی رکھنے کا مشورہ حکومت کو دو۔ وہ تو آنکھیں بند کرکے مراقبے میں بیٹھی ہوئی ہے ملک میں کیا ہورہا ہے عوام کن مشکلات میں ہیں اسے اس سے کوئی سروکار نہیں وہ تو حکمرانی کے نشے میں بدمست ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ عدالتوں کی یومیہ سماعت کی طرح یومیہ اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں گندم اور چینی کی کوئی قلت نہیں۔ عوام بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ وطن عزیز میں کسی چیز کی کمی نہیں، کمی صرف اہلیت کی ہے۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اہلیت کی یہ کمی کیسے دور کی جاسکتی ہے، طرزِ حکمرانی میں جو خرابی ہے جو نقص ہے اس کی اصلاح کی کیا صورت ہے؟ یہ سوال غیر ضروری ہے کیوں کہ بزرگ بہت پہلے ہی اصلاح کی صورت اور اس کی ضرورت سے آگاہ کرچکے ہیں۔ سیانوں کا قول ہے، راجا بیوپاری، پرجا بھکاری، راجا عمران خان کے اکثر درباری بیوپاری ہیں اور وہ پرجا کو
بھکاری بنانے اور راجا جی کو مشہوری کے لیے نت نئے طریقے وضع کرتے رہتے ہیں۔ گندم یا چاول بیرون ملک فروخت کرکے خریدنا تبدیلی نہیں نقالی ہے۔ پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اسی نہج پر چلایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت ایسے لوگ چلارہے ہیں جو شوگر ملز اور فلور ملز کے مالک ہیں۔ اگر اسے گستاخی نہ سمجھا جائے تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ لوگ سیاسی اور معاشی ڈان ہیں۔ شاید یہ کہنا بہتر ہوگا کہ یہ آئیکون ہیں۔ آئیکون کی نفسیات طاقت اور دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوتی ہے ان کی کیمسٹری میں عوام دوستی کا عنصر نہیں ہوتا۔ عمران خان تبدیلی کے لیے مخلص ہوتے تو وہ سیاسی آئیکون کو اپنی حکومت کا حصہ نہ بناتے بلکہ سیاست دانوں پر بھروسا کرتے، مگر خان صاحب نے حکومت کو ایسا حمام بنادیا ہے جس میں سبھی ننگے ہیں۔ ہم بارہا انہی کالموں میں کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان چور چور کا شور مچانے کے بجائے اپنے بیانیے کو شائستگی کا پیراہن دیں۔ ان کے مشیر یہ احساس کیوں نہیں دلاتے کہ ان کا بیانیہ سیاسی رویہ اور انداز حکمرانی سیاست کا جنازہ نکال کر ہی دم لے گا۔ خدا جانے خان صاحب کو لنگر خانے کھولنے کا مشورہ کس نے دیا ہے۔ صدر ایوب خان کے دور میں راشن ڈپو ہوا کرتے تھے جہاں سے عوام کو بازار سے کم نرخ پر آٹا اور چینی ملا کرتی تھی۔ بھارت میں آج بھی راشن کارڈ پر سستے داموں آٹا، چینی اور گھی ملتا ہے، اگر وزیراعظم عمران خان آٹے اور چینی کے بحران سے نکلنا چاہتے ہیں تو راشن کارڈ کا اجرا کریں۔ صحت کارڈ کا ڈراما عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ کام سرکاری اسپتالوں کو ادویات فراہم کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔