پاکستان ‘ ابہام اور حقیقت

266

کراچی کے ادبی میلے میں پرویز ہود بھائی کا یہ کہنا اگر درست بھی ہے کہ پاکستان ایک کنفیوژن کی صورت حال میں ہے کیونکہ اس کی پیدائش ہی کنفیوژن میں ہوئی ہے تو پھر ان کا کنفیوژن دہلی سے الہٰ آباد تک کی سڑکوں پر دور ہورہا ہے۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیںکہ یہ کنفیوژن یوں بھی ہے کہ کیا مسلمانان برصغیر کو الگ وطن کی ضرورت تھی بھی یا نہیں؟۔ پاکستان کے بانیان کے ذہن میں اسے چلانے کے لیے کس نظام کا خاکہ تھا؟۔ ہود بھائی کے بقول قائداعظم کی تقریروں ہی میں یہ ابہام جھلکتا تھا۔ پروفیسر ہود بھائی جانے کب سے ابہام کا شکار ہیں اور کب تک رہیں مگر محمد علی جناح کی مدمقابل جماعت کانگریس کے لیڈر ششی تھرور کا تازہ ترین بیان پڑھیں تو کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ ششی تھرور کا کہنا ہے کہ آج بھارت میں جناح کا نظریہ جیت رہا ہے۔ جناح جہاں بھی ہوں گے خوش ہوں گے کہ دیکھو میں ٹھیک تھا مسلمان ایک الگ ملک کے حق دار تھے کیونکہ ہندو مسلمانوں سے انصاف نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر شہریت کے قوانین کو بزور طاقت نافذ کیا گیا تو جناح کا نظریہ مکمل طور پر جیت جائے گا۔
ششی تھرور کی بات اور بھارت کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو پاکستان کے قیام اور نظریے کے بارے میں اگر کچھ ابہام موجود بھی تھا تو اکہتر سال کا مختصر وقت اسے دور کر چکا ہے۔ بھارت میں نریندرمودی کا ظہور اور نریندر مودی کے بھارت کی اُبھرتی ہوئی شبیہ تبدیلی کے ایک مسلسل عمل کا نتیجہ ہے۔ بھارت کے سیکولرازم کی دیگ کا سب سے اہم دانہ کشمیر تھا۔ ہندو اکثریتی ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست۔ جس پنڈت نہرو نے اپنی انفرادیت، شناخت اور پہچان کے ساتھ قبول کرنے اور اسے برقرار رکھنے کا اعلان کے ساتھ قبول کیا تھا۔ اس ریاست کے مقبول مسلمان لیڈر شیخ محمد عبداللہ نے محمد علی جناح سے فاصلہ اپنا کر خود کو برصغیر کے نیشنلسٹ مسلمان راہنمائوں ابوالکلام آزاد اور دوسرے علاقائی قوم پرست مسلمان لیڈروں کی صف میں کھڑا کیا تھا۔ بھارت کے سیکولرازم نے پہلا وار ہی اسی ریاست پر کیا۔ پہلے اسے حیلوں بہانوں سے اپنے کنٹرول میں لیا پھر اس کی صدیوں پرانی شناخت جسے ’’کشمیریت‘‘ کہا جاتا ہے کو ہندووائزیشن میں بدلنے کا آغاز کیا۔ پھر جس مقبول لیڈر کو بہت چائو کے ساتھ بھارت کے سیکولر وجود کے سر پر ایک تاج کی صورت میں سجانے کے نام پر شیشے میں اتارا گیا تھا بہت بے رحمی کے ساتھ کرسیٔ اقتدار سے اُتار کر جیل میں ڈالدیا گیا۔ جناح کا نظریہ اسی وقت جیتتا ہوا نظر آرہا تھا جب وزیر اعظم کشمیر شیر کشمیر شیخ عبداللہ کو ایک مشہور سیاحتی مقام گلمرگ میں قیام کے دوران نہایت توہین آمیز انداز میں برطرفی کا پروانہ تھما کر قید کر دیا گیا تھا۔
بھارت کی مسلمان قیادت ایک موہوم امید پر حالات کے دھارے میں خود سپردگی کے انداز میں بہتی چلی گئی۔ اس قیادت نے شیخ عبداللہ کے انجام سے حالات کا اندازہ کیا نہ کوئی سبق سیکھ کر جرات کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت اور راہنمائی کی کوشش کی۔ وہ پاکستان کے قیام کے احساس جرم کے حصار میں خود ہی بند ہوئے اور عام مسلمان کو بھی اس دفاعی پوزیشن میں ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کا مسلمان محض سیاسی جماعتوں کا انتخابی چارہ ہو کر رہ گیا۔ جس جماعت نے ضرورت محسوس کی اس چارے سے بھوک پیاس مٹاڈالی۔ یہ قیادت خوش فہمی میں تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہن بدلیں گے، سیکولرازم کے نعروں کا جھول درست ہوگا اور جدیدیت اور ترقی انتہا پسندی کا قافیہ تنگ اور روشن خیالی کا دائرہ وسیع کرتی جائے گی اور ایک وقت ایسا آئے گا جب بھارتی سماج میں مسلمانوں اور ہندوئوں میں ’’من وتو‘‘ کی تمیز ختم ہو جائے گی۔
مولانا ابولکلام آزاد پاکستان کے مستقبل کے بارے میں تو حقیقت پسندانہ اور خوفناک پیش گوئیاں کرتے رہے جنہیں اب بھی کنفیوژن کے مارے ہمارے دانشور سینے سے سجائے ہوئے ہیں مگر مولانا آزاد بھارتی مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش گوئی کر سکے نہ وہ اور ان کے ساتھی آنے والے حالات کی پیش بندی کر سکے۔ شیخ عبداللہ اور مولانا آزاد دونوں اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو ہی کو بھارت کا حال اور مستقبل سمجھ بیٹھے۔ نہرو نے ان کے ساتھ دوستی اور مستقبل کے جو عہد وپیماں کر رکھے تھے وہ ان کی ذات اور ذہنی اُپچ کا شاخسانہ تھا کیونکہ وہ ایک آزاد خیال اور عاشق مزاج انسان تھے۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری نے یہ بات ثابت کردی تھی کہ پنڈت نہرو بھارت کے نظام حکومت کی اسکرین پر کام کرنے والا ایک کردار تو ضرور ہیں مگر پورا بھارت نہیں۔ بھارت حقیقت میں اسی وقت سے اکثریت کی ایک سخت گیر سوچ کا اسیر ہوتا چلا آرہا تھا۔ اب یہ سوچ اس نکتۂ عروج اور عوج کمال کو پہنچ چکی ہے جسے نریندر مودی ایک تاریخی غلطی کا ازالہ کہہ رہے ہیں۔ بھارت کی مسلمان قیادت کشمیر کے حالات سے اس بنا پر لاتعلق رہی کہ اس طرح وہ بھی سرخ دائرے کی زد میں آسکتے ہیں مگر وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ وہ پہلے ہی ایک دائرے کی قید میں آچکے ہیں جسے صرف سرخ کرنا باقی رہ گیا ہے۔ شہریت کے قوانین کے بعد یہ دائرہ سرخ ہو کر رہ گیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ایک کشمیری خاتون ایک وڈیو کلپ میں شکوہ کناں تھیں کہ انہیں دہلی کے ’’شاہین باغ‘‘میں اپنے کتبوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیا گیا۔ شاہین باغ وہ مقام ہے جہاں بھارت بھر کی مسلمان خواتین این آر سی اور سی سی اے کے متعصبانہ قوانین کے خلاف مستقل دھرنا دیے بیٹھی ہیں اور آج یہ احتجاجی کیمپ بھارتی حکمرانوں کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہا ہے۔ کشمیری خواتین نے بھی اپنے مطالبات کے ساتھ اس احتجاج میں بیٹھنے کی کوشش کی تھی مگر انہیں اس کی اجازت نہیں مل سکی۔ کشمیر میں بھارت دوست قیادت محبوبہ مفتی نے تو جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ اعتراف کر لیا ہے کہ ان بزرگوں نے مسلم اکثریتی پاکستان کے بجائے سیکولر بھارت کا ساتھ دیکر غلطی کی تھی مگر بھارت کی مسلمان قیادت کو ابھی اس اعتراف میں جھجک اور حجاب ہے اوراس کی وجہ یہ موہوم امید ہے کہ ایک دن وقت کا پہیہ اُلٹا گھوم جائے گا اور یہ سارے فیصلے اس پہیے کی گرد میں تحلیل ہو جائیں گے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ ذہنوں میں جو زہر بھر دیا گیا اس کو ابھی کئی رزم آرائیوں میں اپنا چہرہ اور جلوہ دکھانا ہے۔ یہ جو ہندو انتہا پسند لڑکے انفرادی طور پر دہلی کے مظاہرین پر حملے کرتے ہیں محض ابتدا ہے۔ بھارت کا مسلمان آج جس خوف اور غیر یقینی کا شکار ہے اور اس سے بڑھ کر جو کچھ دیوار پر لکھا ہوا نظر آرہا ہے جناح کے نظریہ کی جیت اور صداقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔