کراچی کی صورتحال پر عدالت عظمیٰ کی برہمی

369

عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں کراچی کی بحالی کے لیے ہونے والی سماعتوں سے کچھ امید ہوچلی ہے کہ کراچی کا بھی کوئی والی وارث ہے ۔ کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس کی آمدنی سے پورا ملک تو فیضیاب ہوتا ہے مگر اس کی ترقی تو دور کی بات ، اس کی تباہی کو روکنے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں ہے ۔ صوبے میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے تو کراچی کی بلدیات میں متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین براجمان ہیں ۔دونوں ہی پارٹیوں کے سربراہوں کو صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ ترقیاتی فنڈز میں سے کتنا حصہ ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع ہوتا ہے ۔ دونوں پارٹیوں کے سربراہوں کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ کس علاقے میں ان کے حامی ووٹرز ہیں اور کہاں پر نہیں ۔ دونوں علاقوں سے یکساں سلوک بلکہ بدسلوکی ہے ۔ کراچی میں پیپلزپارٹی کے گڑھ لیاری کا حال دیکھ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یورپ کا تاریک دور کیسا ہوگا ۔ اسی طرح کراچی کے وہ علاقے جیسے ملیر ، لانڈھی ، کورنگی ، نیو کراچی ، لیاقت آباد ، اورنگی ٹاؤن ، رنچھوڑ لائنز وغیرہ جہاں سے ایم کیو ایم اکثریت سے کامیا ب ہوتی رہی ہے ، بھی سیوریج کے پانی میں ڈوبے ہوئے اور کچرے تلے دبے ہوئے ہیں ۔ سیوریج کی تو یہ صورتحال ہے کہ یونیورسٹی روڈ جو ڈیڑھ ارب روپے سے زاید مالیت سے حال ہی میں تعمیر کی گئی ہے ، وہ بھی اب سیوریج کے پانی کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ کسی بلدیاتی ادارے یا واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو کوئی فکر ہی نہیں ہے ۔ کراچی یا سندھ کے دیگر علاقوں کی تباہی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان علاقوں کے لیے کبھی ترقیاتی فنڈز مختص ہی نہیں کیے گئے ۔ صرف لیاری کے لیے جتنے فنڈز اب تک مختص کیے گئے ہیں ، اتنے میں تو کئی نئے شہر جدید سہولیات کے ساتھ آباد ہو جاتے ۔ کچھ یہی صورتحال بقیہ کراچی کے ساتھ ہے ۔ سابق سٹی ناظم مصطفے کمال اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ان کے دور میں صرف سیوریج لائنیں ڈالنے کی مد میں 40 ارب روپے کے اخراجات کیے گئے تھے ۔ سیوریج لائنوں کی صورتحال کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ 40 ارب روپے کہاں پہنچے ہوں گے ۔ ویسے بھی میئر کراچی وسیم اختر اور مصطفے کمال کئی مرتبہ ایک دوسرے کے بارے میں زبردست انکشافات کرچکے ہیں ۔ کراچی کا ایک سنگین مسئلہ بلا کسی منصوبہ بندی کے تعمیرات ہیں ۔ اب عدالت عظمیٰ نے اس طرف توجہ دی ہے ۔ جمعرات اور جمعہ کو دونوں دن سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے احکامات دیے کہ جو بھی ناجائز تعمیرات ہیں ، انہیں فوری طور پر گرادیا جائے ۔ جب سپریم کورٹ کی اس طرف توجہ دلائی گئی کہ اس بارے میں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کررکھا ہے تو سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں بتادیا جائے کہ گرانے کا حکم سپریم کورٹ کا ہے۔ عدلیہ قانون کی محافظ ہے اور اس کا کا م قانون کے مطابق امور مملکت کی انجام دہی کو یقینی بناناہے ۔ جناب چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت اتھارٹی کے تمام اعلیٰ افسران کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دیا ہے کہ زمینوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ ان کی ملی بھگت سے ہوئی ہے۔ میئر کراچی سے سوال کیا ہے کہ کام نہیں کرنا تو میئر کیوں بنے ہوئے ہیں۔ کوئی کام کیا ہو تو بتائیں۔ میئر کراچی کے پاس تو گھڑاگھڑایا عذر ہے کہ ان کے پاس اختیارات ہی نہیں ایسے میں عدالت عظمیٰ کے مشورے پر عمل کر ڈالیں۔ ایک اندازے کے مطابق خصوصی عدالتوں کے تو تقریبا سارے ہی فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں جا کر تبدیل ہوجاتے ہیں جبکہ دیگر ماتحت عدلیہ کے فیصلوں کی بھی ایک بڑی تعداد اعلیٰ عدلیہ میں جا کر یکسر تبدیل ہوجاتی ہے ۔ ا س کا واضح مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ یا تو ماتحت عدالتیں درست فیصلے نہیں دے رہی ہیں جس کی بناء پر اعلیٰ عدلیہ کو انہیں درست کرنا پڑتا ہے یا پھر کرپشن بے انتہا ہے جس کی وجہ سے فیصلے تبدیل ہورہے ہیں ۔ دونوں ہی صورتیں انتہائی تشویشناک ہیں اور اس کا جائزہ لے کر اسے درست کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ اگر سندھ ہائی کورٹ نے کسی مقدمے میں غلط حکم امتناع جاری کیاہے تو سپریم کورٹ کو اس بارے میں دیکھنا چاہیے اور حکم امتناع ختم کرنے کا جو طریق کار ہے ، اسے اختیار کرنا چاہیے ۔ اسی طرح محض یہ احکامات کافی نہیں ہیں کہ کسی عمارت کو گرادیا جائے بلکہ اس پہلو کو بھی دیکھا جائے کہ جب مذکورہ عمارت تعمیر ہورہی تھی تو علاقہ ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کون تھا ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے بلڈنگ انسپکٹر سے لے کر ڈائریکٹر تک کون کون موجود تھا ، کے ڈی اے کے لینڈ ڈپارٹمنٹ میں کون لوگ موجود تھے اسی طرح بلدیاتی اداروں میں کون ذمہ دار موجود تھا ۔ ان سب لوگوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ، ان کی جائیدادیں قرق کی جائیں اور انہیں بھی سزا دی جائے ۔ مون بلڈنگ کے کیس ہی کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے لیں ۔ اس عمارت کے کاغذات مکمل ہیں تو اس میں ان لوگوں کا کیا قصور ہے ، جنہوں نے اس عمارت میں فلیٹ خریدے تھے ۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں کو طلب کیا جائے ، جنہوں نے اس بلڈنگ کی تعمیر کی منظوری لی اور دی ۔ ان سب کو نہ صرف سزائیں دی جائیں بلکہ ان سے رقم وصول کرکے متاثرین کو دی جائے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ریلوے کی زمین کے قابضین کی ہے ۔ یہ ریلوے پولیس اور مقامی پولیس کی ذمہ داری تھی کہ اس زمین پر قبضہ نہ ہونے دیتے مگر انہوں نے بھاری رشوت کے عوض ایسا ہونے دیا ۔ ان سارے پولیس اور ریلوے کے افسران کو اگر ایک دفعہ سزا مل گئی تو پھر آئندہ کوئی بھی یہ جرم کرنے کی ہمت نہیں کرسکے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل چیف جسٹس اس پہلو پر ضرور غور کریں گے تاکہ کسی کے ساتھ ظلم نہ ہو اور ظالم مزے نہ کرتے رہیں ۔ وہ عدالتی نظام کو بھی موثر بنائیں گے تاکہ عدالت ناانصافی کو تحفظ دینے کے بجائے انصاف کی محافظ بن جائے ۔