’’احساس کفالت پروگرام‘‘ اور سودی معیشت

959

وزیراعظم عمران خان نے چند روز پہلے احساس کفالت پروگرام کا افتتاح کیا ہے۔ یہ منصوبہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جگہ لے گا جو دراصل پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو نوازنے کے لیے شروع کیا گیا تھا بعد میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تو اس نے بھی عالمی بینک کے تعاون سے اسے جاری رکھا اور (ن) لیگ کے کارکنوں نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ جب کہ سرکاری ملازمین و افسران نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ یوں اس پروگرام کی افادیت ختم ہو کر رہ گئی۔ اب اگرچہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا گیا لیکن تاثر یہی ہے کہ اس پروگرام کو غیر فعال کردیا جائے گا اور اس کی جگہ احساس کفالت پروگرام لے لے گا۔ کیوں کہ ایک ہی نوعیت کے دو پروگرام بیک وقت نہیں چل سکتے۔ احساس کفالت پروگرام کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کو خود کفیل اور مالی اعتبار سے بااختیار بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس پروگرام کے پہلے مرحلے میں ستر اضلاع میں دس لاکھ خاندانوں کا اندراج کیا جائے گا اور سال رواں کے تیسرے مہینے سے ان خاندانوں کی غریب خواتین کو دو ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ، پچھتر ہزار روپے بلا سود قرض اور مرحلہ وار دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ پروگرام میں ستر لاکھ مستحق خواتین کے اندراج کا ہدف رکھا گیا ہے جنہیں کفالت ویب سروس کے ذریعے گھر گھر سروے اور احساس نادرا ڈیسک رجسٹریشن سینٹر کے تعاون سے چنا جائے گا اور پروگرام کو ہر اعتبار سے شفاف بنایا جائے گا۔ مستحق خواتین اپنے سیونگ اکائونٹس کے ذریعے ماہانہ اعزازیہ حاصل کرسکیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ پچھتر ہزار روپے بلا سود قرضے کے ذریعے مستحق خواتین گائے، بھینسیں اور بکریاں پال کر اپنی آمدنی میں اضافہ کرسکیں گی۔
احساس کفالت پروگرام بظاہر خوش نما الفاظ کا گورکھ دھند اور ایک ایسا پروگرام ہے جسے شیخ چلی کے روایتی مرغی اور انڈے کے منصوبے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس پروگرام میں غریب، نادار اور مستحق مردوں کا کوئی ذِکر نہیں صرف خواتین کا ذکر ہے، خواتین بھی وہ جو دیہی علاقوں میں رہتی ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ دیہی معاشرت میں خواتین کو بنیادی اہمیت حاصل ہے وہ گھروں میں کھانے پکانے اور بچوں کی پرورش کے علاوہ کھیتوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ جانوروں کے دودھ دوہنا، دودھ سے دہی، لسی اور مکھن بنانا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے لیکن ان تمام امور کی انجام دہی کے باوجود خاندان کی کفالت ان کی ذمے داری نہیں ہے۔ شہر ہو یا دیہات قانون قدرت کے مطابق مرد ہی خاندان کا سربراہ ہوتا ہے اور وہی اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرتا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ بیوی کما کر لائے اور مرد نکھٹو بن کر گھر میں بیٹھا رہے۔ البتہ معاشرتی و سماجی تبدیلیوں اور معاشی دبائو کے نتیجے میں یہ ضرور ہوا ہے کہ پڑھے لکھے ترقی یافتہ خاندانوں میں میاں بیوی مل کر کماتے اور گھر کا نظام چلاتے ہیں۔ اسلام نے بھی اپنی حدود میں رہتے ہوئے عورت کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق معاشی ذمے داری میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹائے اور اپنے خاندان کو آسودہ رکھے۔ پاکستان میں کامیابی کے ساتھ یہ معاشرتی نظام چل رہا ہے۔ تاہم ’’احساس کفالت پروگرام‘‘ میں جن خواتین کا ذکر کیا گیا ہے ہم حیران ہیں کہ وہ کہاں پائی جاتی ہیں اور مردوں کے ہوتے ہوئے ان پر خاندان کا بوجھ کس نے ڈال دیا ہے کہ حکومت کو انہیں خود کفیل اور معاشی اعتبار سے خود مختار بنانے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ البتہ بیوہ خواتین جن کا کوئی سہارا نہ ہو اور جن پر اپنے بچوں کی پرورش کا بوجھ آپڑا ہو ضرور امداد کی مستحق ہیں اور ان پر ضرور توجہ دی جانی چاہیے۔ اسلام نے اس سلسلے میں زکوٰۃ کا نظام وضع کیا ہے جس میں بیوائوں، یتیموں، ناداروں اور مسکینوں کی کفالت کی پوری گنجائش موجود ہے۔ اگر اس نظام کو پورے اخلاص اور دیانتداری سے نافذ کیا جائے اور معاشرے کے وہ تمام افراد جن پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اسے ایک دینی فریضہ سمجھ کر ادا کریں تو پھر کسی احساس کفالت پروگرام یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن آئی ایم ایف، عالمی بینک یا دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے اسلام کے اس نظام کو کیسے نافذ ہونے دیں گے، وہ تو سود کو بھی ختم کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ اوّل تو پاکستانی حکمرانوں کے اندر اسلام کے ساتھ کوئی کمٹمنٹ نہیں پائی جاتی۔ دوم یہ کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں بُری طرح جکڑے ہوئے ہیں اور اس شکنجے سے نکلنے کے لیے ان کے اندر کوئی قوت ارادی موجود نہیں ہے۔ عمران خان نے تو خود آئی ایم ایف کو پاکستان پر حکمرانی کی دعوت دی ہے اور ملک کا پورا مالیاتی نظام اس کے آگے سجدہ ریز کردیا ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں زکوٰۃ کا نظام نافذ کیا گیا تھا لیکن بدنیتی اور بد دیانتی کے سبب اس پر عمل نہیں ہوسکا۔ ان کے بعد جو سیاسی حکومتیں آئیں انہوں نے اسے کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کا ذریعہ بنالیا۔ بینکوں کے ذریعے زکوٰۃ اب بھی کاٹی جاتی ہے لیکن کھاتے داروں کی بڑی تعداد ایسی ہے جس نے زکوٰۃ سے استثنا کے حلف نامے جمع کرا رکھے ہیں اور بہت سے لوگ وہ ہیں جو زکوٰۃ منہا کیے جانے سے پہلے ہی اپنی رقم نکلوا لیتے ہیں اور زکوٰۃ کی کٹوتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد دوبارہ کھاتا کھول لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں بینک کا عملہ ان سے پورا تعاون کرتا ہے اور محض کاغذی کارروائی کے ذریعے انہیں زکوٰۃ کی ادائیگی سے بچالیتا ہے جو لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں وہ بینکنگ کے سودی نظام پر یقین نہیں رکھتے اور اپنے طور پر زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے ہیں۔ ہم نے یہ بحث اس لیے چھیڑی ہے کہ عمران خان ریاست مدینہ کا راگ الاپتے رہتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کا ماڈل بنائیں گے اب ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ ریاست مدینہ میں سود کی گنجائش کہاں تھی اور ’’احساس کفالت‘‘ جیسے پروگراموں کا کہاں چرچا تھا۔ اس ریاست میں تو سود سے پاک معیشت قائم تھی اور زکوٰۃ کا منصفانہ نظام بلا امتیاز سب مستحقین کی داد رسی کررہا تھا۔ عمران خان اگر ان دو باتوں پر توجہ دیں اور پاکستان کی معیشت کو سود سے پاک کرکے زکوٰۃ کا نظام نافذ کردیں تو ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے ورنہ احساس کفالت پروگرام کے خدوخال بتارہے ہیں کہ اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ہوچکا ہے۔