منشیات کی لعنت

300

ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس وقت لگ بھگ پانچ ہزار افراد ہیروئن کی لعنت میں مبتلا ہیں۔ متذکرہ رپورٹ کے مطابق منشیات کے استعمال کا زیادہ تر رحجان نوجوان طبقے میں ہے جس کے منفی اثرات تیزی سے معاشرے میں ایک وباء کی صورت پھیل رہے ہیں۔ ملک میں منشیات کے تیزی سے پھیلائوکا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس وباء کی روک تھام کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی موثر پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ جوں جوں ہم ترقی کے زینے طے کرتے جا رہے ہیں توں توں ہمارے ہاں منشیات کے استعمال کی لت بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے طور طریقے بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ ہم اکثر اس بات پر فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ ہماری 65فی صد سے زیادہ آبادی 35سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور نوجوانوں کی اس شرح کو ہم بجا طور پر اپنی طاقت سمجھتے ہیں لیکن دوسری جانب معاشرے کی اس غالب اکثریت کی صلاحیتوں اور ان کی استعداد کو ملک و قوم اور انسانیت کی فلاح و بہتری کے لیے بروئے کار لانے کے لیے ہمارے پاس من حیث القوم نہ تو کوئی وژن اور نہ منصوبندی ہے اور نہ ہی ہمیں اس حوالے سے کوئی فکر لاحق ہے جس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر جہاں ہمارے نوجوان نسل کی بے روزگاری اور مختلف جرائم میں ملوث ہونے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے وہاں نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ حالات اور اپنے مستقبل سے مایوس ہو کر منشیات کی لت کا شکار بھی ہو رہا ہے۔
کالم کے آغاز میں ہیرونچیوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافے کی جس رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے اس کے مطابق پشاور میں چالیس ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں کھلے عام ہیروئن نہ صرف استعمال کی جا رہی ہے بلکہ ان مقامات جو متعلقہ تھانوں کی ناک کے نیچے واقع ہیں وہاں دھڑلے سے ہیروئن فروخت بھی کی جا رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 60لاکھ سے زائد افراد ہیروئن کی وباء کے شکار ہیں جن میں 33فی صد وہ نوجوان ہیں جن کی عمریں 31اور 40سال کے درمیان ہے۔ اس رپورٹ کا ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہیروئن کے عادی افراد میں خواتین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد شامل ہے جس سے یہ ایشو ایک گمبھیر سماجی مسئلے کا روپ دھار رہا ہے۔ اسی طرح ہیروئن استعمال کرنے والوں میں گو ایک بڑی تعداد نا خواندہ افراد کی ہے لیکن اس لت کے شکار افراد میں پڑھے لکھے حتیٰ کہ مختلف مدارج میں زیر تعلیم طلبہ کی بھی ایک واضح تعداد شامل ہے۔ معاشرے کو درپیش اس خطرناک چیلنج پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں منشیات کا استعمال اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کی باز گشت گزشتہ دنوں ایوان بالا میں بھی سنائی دی گئی ہے۔ اس خطرناک صورتحال کی جانب حکومت اور متعلقہ اداروں کی توجہ جماعت اسلامی کے مرکزی اور خیبر پختون خوا کے امراء سینیٹرز سراج الحق اور مشتاق احمد خان نے دو الگ الگ توجہ دلائو نوٹس کی صورت میں دلائی ہے جن میں ان دونوں فاضل سینیٹرز نے سوال اٹھایا ہے کہ حکومت بتائے کہ اس وقت وطن عزیز میں منشیات کے شکار افراد کی مجموعی تعداد کتنی ہے اور حکومت اس وباء کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے جس پر وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کا کہنا تھا کہ ملک میں اس وقت منشیات استعمال کر نے والوں کی درست تعداد دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ملک میں 2013 کے بعد سرے سے کوئی ڈرگ سروے ہوا ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے حکومتی اداروں کے پاس منشیات استعمال کرنے والوں کے درست اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں البتہ 2013 کے ڈرگ سروے کے مطابق ملک میں 67لاکھ افراد نشے کی لت کے شکار ہیں جن میں 15سے لیکر 65سال عمر تک کے افراد شامل ہیں۔ یہاں سے اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ پاکستان جہاں مختلف جرائم اور خلاف قانون کا موں نیز منشیات سے متعلق اشیاء کی روک تھام کے لیے قوانین تو تھوک کے حساب سے موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد سب سے بڑا چیلنج ہے وہاں اس حوالے سے یہ بات بھی مضحکہ خیز ہے کہ کنٹرول آف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت وطن عزیز میں منشیات کی بیخ کنی کے لیے 19 وفا قی اور 13صوبائی قانون نافذ کرنے والے ادارے کا م کر رہے ہیں لیکن ان اداروں کی کارکردگی کا اندازہ ملک کے طول وعرض میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص نشہ آور اشیاء کی کھلے عام فروخت کے ساتھ ساتھ شہر کی ہر سٹرک پر موجود ہیرونچیوں اور دیگر منشیات کے شکار افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ درحقیقت یہی وہ اصل چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہوئے بغیر ہمارے لیے اپنی نوجوان نسل کو ایک روشن وتابناک مستقبل دینے کا خواب شاید کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔