مقبوضہ کشمیر : فوج کی فائرنگ سے زخمی نوجوان شہید۔ عمر عبداللہ اورمحبوبہ مفتی کی حراست میں توسیع

55

سری نگر(خبر ایجنسیاں) مقبوضہ کشمیر میں 22 جنوری کو سرچ آپریشن کے دوران بھارتی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے کشمیری نوجوان کی تشدد زدہ لاش جنگلات سے برآمد ہوئی ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق جنت نظیر وادی کے ضلع پلوامہ کے جنگلات سے ایک نوجوان کی تشدد زدہ لاش ملی ہے۔ لاش پر گولیوں کے نشانات بھی تھے۔ چرواہوں نے پولیس کو اطلاع دی جس پر لاش کو شناخت کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال میں لواحقین نے لاش کو شناخت کرلیا ہے، نوجوان کو اوانتی پورہ کے علاقے زین تراگ میں بھارتی فوج نے 22 جنوری کو سرچ آپریشن کے دوران گولیاں مار کر زخمی کردیا تھا اور اپنے ساتھ لے گئی تھی۔نوجوان کی شناخت کے بعد علاقہ مکینوں نے بھارتی فوج کی جارحیت کیخلاف اور پاکستان کے حق میں شدید نعرے بازی کی جب کہ پلوامہ، اوانتی پورہ اور ترال میں مکمل ہڑتال کی گئی۔بھارتی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے درجنوں کشمیری زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب حریت رہنمائوں نے شہدائے کشمیر محمد افضل گورو اور مقبول بٹ کی برسی کے موقع پر 9 اور 11 فروری کو مکمل ہڑتال کی اپیل کی ہے۔واضح رہے کہ 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی بھر میں بھاری تعداد میں نفری کو تعینات کردیا گیا ہے، کئی علاقوں میں تاحال انٹرنیٹ سروس معطل، ذرائع آمد ورفت موقوف اور کاروباری سرگرمیاں بند ہیں جس کے باعث کشمیری گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔علاوہ ازیںبھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد وادی کے سابق وزرائے اعلیٰ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی، سمیت 4 سیاسی رہنماؤں کی حراست میں توسیع کردی۔خیال رہے کہ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی جانب سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرکے مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور ساتھ ہی سیاسی قیادت سمیت سابق وزرائے اعلیٰ کو حراست میں لے لیا تھا۔برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سری نگر میں موجود حکام نے بتایا کہ حالیہ حراست کا حکم ‘سفاکانہ’ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت جاری کیا گیا، جس کے تحت بغیر کسی الزام کے 2 سال تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے۔حکام کا کہنا تھا کہ حراست میں موجود افراد میں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور مقامی پارٹی رہنما علی محمد ساگر اور سرتاج مدنی شامل ہیں۔دوسری جانب محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر کا سہارا لیتے ہوئے اپنی والدہ کی حراست کی تصدیق کی۔انہوں نے لکھا کہ ایک ایسی حکومت سے سفاکانہ پی ایس اے کے طمانچے کی ہی امید ہے جس کے دور میں 9 سالہ بچی پر ‘بغاوت’ کا مقدمہ درج کیا جائے، سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اس غلط عمل پر تماشائی بنے رہیں گے، کیا یہ قوم کھڑی ہوگی؟۔