سکڑتی معیشت میںمحاصل اور زرمبادلہ زخائر میں اضافہ تشویشناک ہے
ریونیو ہدف ایف بی آر کے بس کا روگ نہیں، معجزے کی ضرورت ہے
اسلام آباد چیمبر کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ سکڑتی ہوئی معیشت اور گرتی ہوئی برامدات کے باوجود محاصل اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ تشویشناک ہے جو ملکی معیشت کی غلط سمت کا پتہ دیتا ہے۔گزشتہ سال کے مقابلہ میں شرح نمو کم ہو گئی ہے
مگر محاصل میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے لئے اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کے بجائے عوام اور کاروباری کو ہدف بنایا گیاجبکہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی گئی۔ شاہد رشید بٹ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ محاصل کے جن اہداف پر معاہدہ کیا گیا تھا انکا حصول ایف بی آر کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس کے لئے معجزے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ امسال جنوری کی برامدت میں گزشتہ سال کے مقابلہ میں 3.4 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔گزشتہ سال جنوری میں 2.3 ارب ڈالر کی برامدات کی گئی تھیں
جو سال رواں میں گر کر 1.96 ارب ڈالر کی رہ گئی ہیں جس کی وجوہات میں مجموعی اقتصادی صورتحال سیاسی و معاشی عدم استحکام توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ریفنڈ کی عدم ادائیگی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایک طرف برامدات گر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کے لئے جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ معیشت کے لئے مفید نہیں ہے۔ موجودہ پالیسی کے تحت سال رواں کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر بیس ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں
جس میں ٹی بلز میںغیر ملکی سرمایہ کاری پانچ ارب ڈالر تک ہو گی تاہم متعدد ماہرین معیشت نے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لئے برامدات کو توجہ دینے کے بجائے سرمایہ کاروں کو بھاری سود ادا کرنے کا طریقہ اختیار کئے جانے پراعتراض کیا ہے کیونکہ اس کے نتائج انتہائی غیر متوقع بھی نکل سکتے ہیں۔غیر ملکی سرمایہ کار کسی بھی وقت اپنا پیسہ نکال سکتے ہیں جس سے ملک میں ایک نیا بحران جنم لے گا ۔ انھوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر جو چوبیس جنوری کو 18.363 ارب ڈالر تھے وہ اکتیس جنوری کو بڑھ کر 18.645 ارب ڈالر ہو گئے ہیں۔ایک ہفتے میںزرمبادلہ کے ذخائر میں 282 ملین ڈالر کا اضافہ پریشان کن ہے۔