5فروری کو پاکستان میں کشمیریوں کے ساتھ یوم یک جہتی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ اس موقع پر کسی نے ایک لمحہ کے لیے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ آج کشمیری جس ظلم و ستم کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں اس کے بڑی حد تک ذمے دار ہمارے پرانے حکمران ہیں۔ یہ نہ کبھی بھلائے جانے اور نہ کبھی معاف کرنے والا المیہ ہے کہ کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی استصواب رائے کی قرار داد کی منظوری کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں نے استصواب کے موقف کو ترک کر کے کشمیر کی تقسیم اور اس کے علاقوں کے بٹوارے کی راہیں تلاش کرنی شروع کر دیں تھیں۔ اس المیہ کا آغاز 1953میں اس زمانہ کے گورنر جنرل غلام محمد کے دور میں ہوا جب انہوںنے منتخب وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو اچانک برطرف کر کے امریکا میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ امریکا سے آئے ہوئے تازہ تازہ، اپنے تقرر کے فوراً بعد محمد علی بوگرہ نے ہندوستان سے تعلقات بہتر بنانے کی مہم شروع کی اور ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر العل نہرو کو کراچی آنے کی دعوت دی۔ اس دورے کے بعد جنوری 1955کو گورنر جنرل غلام محمد لکھنو کے قریب، بارہ بنکی میں دیوا شریف کی زیارت کے بہانے دلی گئے اور پالم کے ہوائی اڈے پر، نہرو کو ایک بند لفافہ دیا جس میں، کاغذ کے ایک پرزے پر کشمیر کے مسئلے کا 4 نکاتی حل تجویز کیا گیا تھا۔ بنیادی نکتہ سلامتی کونسل کی استصواب کی قرارداد پر عملدرآمد کا نہیں تھا بلکہ اس پر زور دیا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کو کشمیر کا مسئلہ آپس میں طے کرنا چاہیے کسی بیرونی مداخلت کے بغیر۔ بلا شبہ، نہرو کے لیے یہ انداز فکر طمانیت کا باعث تھا کہ پاکستان یہ مسئلہ اقوام متحدہ سے باہر حل کرنا چاہتا ہے، دوسرے معنوں میں استصواب کی شرط اب لازمی نہیں۔ دیوا شریف سے واپسی کے فوراً بعد غلام محمد نے 14 مئی 55 کو اپنے وزیر اعظم بوگرہ اور وزیر داخلہ اسکندر مرزا کو دلی بھیجا جنہوں نے نہرو سے بات چیت کی جس میں مولانا ابوالکلام آزاد اور وزیر داخلہ پنڈت گوبند بلبھ پنتھ بھی شامل تھے۔ پاکستان کے وزراء نے اس بات چیت میں استصواب کا موقف ترک کر کے کشمیر کی تقسیم کی تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ جموں کا ایک بڑا علاقہ بشمول، پونچھ، ریاسی اور ادھم پور وغیرہ پاکستان کو منتقل کر دیے جائیں اور اسکردو، ہندوستان کے حوالہ کر دیا جائے۔ کارگل کا علاقہ، کشمیر سے نتھی کردیا جائے اور آئندہ دادی کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہو اس کے مطابق کارگل کا مستقبل طے کیا جائے۔ پاکستان کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ کارگل پر، ہندوستان اور پاکستان کا سیاسی اور فوجی لحاظ سے مشترکہ کنٹرول ہو۔ ان تجاویز میں کہا گیا تھا کہ استصواب کا امکان اگلے پانچ سال سے لے کر بیس سال تک موخر ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں کے اس رویے سے پنڈت نہرو کو جو دراصل دسمبر 1948 ہی سے استصواب کو رد کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے لیکن مصلحت اور بدنامی کے پیش نظر اس کا اعلان نہیں کرنا چاہتے تھے، استصواب سے روکش کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کے بعد جب ہندوستان اور چین کے درمیان جنگ کے دوران نہرو نے ایوب خان سے، مصلحتاً تنازع کشمیر پر بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی جس کے نتیجہ میں، 1963 میں سورن سنگھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے تو ان میں بھی استصواب بنیادی مسئلہ نہیں تھا بلکہ تما م تر زور، کشمیر میں بین الاقوامی سرحد کھینچنے پر
تھا۔ سورن سنگھ، کشمیر کی تقسیم کے لیے پاکستان کی رضامندی کے عوض، وادی کشمیر میں ہندواڑہ کا علاقہ پاکستان کو منتقل کرنے پر تیار تھے لیکن، چین کی جنگ میں ہندوستان کو شکست خوردہ تصور کرتے ہوئے بھٹو نے کٹھوا کے علاوہ پوری وادی کو پاکستان میں شامل کرنے پر زور دیا۔ ان مذاکرات میں اس تجویز پر بھی غور ہوا کہ ٹٹوال، اڑی اور پونچھ کے علاقے پاکستان کے حوالے کر دیے جائیں اور اس کے عوض پاکستان جموں کا چناب کا علاقہ اور کارگل کے قریب، دراس کا قصبہ، ہندوستان کے حوالہ کر دے۔ المیہ در المیہ جولائی 1972 کو شملہ میں مسز گاندھی اور بھٹو کے درمیان مذاکرات میں جو سمجھوتا طے پایا اس میں کشمیر کا تنازع، کشمیر کا مسئلہ قرار دیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے اختلافات باہمی مذاکرات کے ذریعہ حل کریں گے اور کسی تیسرے فریق کو حتی کہ اقوام متحدہ کا اس میں دخل دینے کی اجازت نہیں دیں گے۔ یوں کشمیر کا تنازع، کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کے مسئلے کی جگہ محض دونوں ملکوں میں اختلاف قرار دیا گیا اور اقوام متحدہ کے تحت استصواب کا موقف ہمیشہ کے لیے ترک کردیا گیا۔ یہی نہیں شملہ سمجھوتے کے تحت کشمیر میں جنگ بندی لائین کو لائین آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔
1999میں نواز شریف کی دعوت پر ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے لاہور کے دورے کے اعلانیہ میں شملہ سمجھوتے کی منظوری کی پختہ مہر ثبت کر دی گئی کہ دونوں ملکوں نے شملہ سمجھوتے پر مکمل عہد کا پیمان کیا۔ لاہور اعلانیہ میں کشمیر کے تنازعے کا خاص ذکر نہیں تھا صرف اتنا کہا گیا تھا کہ دونوں ملک جموں اور کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کریں گے۔ فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی آگرہ میں اٹل بہاری واجپئی سے مذاکرات میں کشمیر کو تنازعے کے بجائے مسئلہ قرار دیا۔ یہی نہیں انہوں نے حریت کے رہنماوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے موقف میں لچک پیدا کریں۔ آگرہ میں مشرف نے مذاکرات میں استصواب یا اقوام متحدہ کی قرارداد کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ آگرہ کے 9 نکاتی اعلانیے میں کہا گیا تھا کہ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ کشمیر کے معاملہ کا حل دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار کرے گا۔
1955سے 2001 تک پاکستان کے حکمرانوں نے، جن میں فوجی آمر پیش پیش اور منتخب رہنما بھی شامل تھے، کشمیر کے تنازعے کے بارے میں جو موقف اختیار کیا اس کے بارے میں بلا تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی صریح خلاف ورزی تھی، جس کے تحت کشمیروں سے پیمان کیا گیا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ، حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ خلاف ورزی کشمیر کے عوام سے بے وفائی سے زیادہ غداری تھی۔ نریندر مودی کو دراصل کشمیریوں کے ساتھ پاکستان کے حکمرانوں کی غداری کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر کی خاص حیثیت کے خاتمہ اور وادی کا محاصرہ کرنے کے اقدام کے لیے شہہ ملی ہے کیونکہ مودی کو یقین ہے کہ پاکستان کے حکمران محض زبانی یک جہتی کے علاوہ کچھ نہ کر سکیں گے۔ مودی کو اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکا، برطانیہ اور دوسری مغربی قوتوں کے ساتھ سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک اپنے اقتصادی مفادات کے پیش نظر ہندوستان کی حمایت کریں گے، سوائے ترکی اور ملائیشیا کے۔ پچھلے دنوں ڈیووس میں پاکستا ن کے وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں کشمیریوں پر ہندستان کے ظلم و ستم کے مسئلے کے بجائے اہمیت افغانستان کے مسئلے اور وہاں سے امریکی فوجوں کے انخلا میں مدد پر دی۔ وطن میں بیٹھ کر کشمیریوں سے یک جہتی کے نعرے بے معنی اور کھوکھلے ثابت ہوں گے۔