سرعام پھانسی دینے کی قرارداد

386

قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی ہے مگر اس پر حکومت اور پیپلزپارٹی کا ردعمل سمجھ سے بالاتر ہے ۔ مذکورہ قرارداد سرکاری بینچ سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر علی محمد خان کی جانب سے پیش کی گئی مگر اس کی منظوری کے بعد فواد چودھری اور شیریں مزاری نے اسے افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ یہ سرکاری قرارداد نہیں بلکہ انفرادی قرارداد تھی جبکہ پوری پیپلزپارٹی اس کی مخالفت میں کھڑی نظر آئی ۔ زیادتی کسی کے ساتھ ہو ، انتہائی افسوسناک ہے اور جب بات بچوں تک پہنچ جائے تو اس کی سنگینی میں کئی سو گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔ اس قرارداد کی مخالفت کرنے والے کیا زیادتی اور قتل کے مجرموں کو ہار پھول ڈالنا چاہتے ہیں ۔یہ کوئی دلیل نہیں ہے کہ اقوام متحدہ نے سزائے موت کے خلاف قرارداد منظور کی ہوئی ہے ۔ اقوام متحدہ کو ایک مجرم کی زندگی تو بہت پیاری ہے مگر پھول جیسے معصوم بچے اقوام متحدہ کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ بہتر ہوگا کہ ملک میں اس قسم کی مخالفت کرنے والوں کو نظر انداز کیا جائے اور سنگین جرائم کے لیے نہ صرف موثر قانون سازی کی جائے بلکہ اس پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے ۔ اغوا، زیادتی اور قتل جیسے قبیح جرائم کے خلاف موثر کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے مجرموں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں ۔ علی محمد خان قرارداد پیش کرنے اور دیگر ارکان اسمبلی اس قرارداد کی حمایت کرنے پر تحسین کے مستحق ہیں ۔یہ قرارداد منظور کرنا یقینا اہم قدم ہے تاہم اس سلسلے کو رکنا نہیں چاہیے ۔ کوئی ایسا مانیٹرنگ سیل بھی بنایا جانا چاہیے جس میں دیکھا جائے کہ اس قسم کے کیسوں کو حل کرنے میں پولیس کی کیا کارکردگی ہے اور مجرموں کو کیے کی سزا ملی کہ نہیں ۔ اب تک کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ مجرم پولیس کی مدد سے بچ نکلتے ہیں ۔ اول تو ایسے مجرم کبھی پکڑے ہی نہیں جاتے اور کبھی گرفت میں آ بھی جائیں تو ان کے خلاف پولیس اتنا کمزور مقدمہ بناتی ہے کہ وہ باآسانی عدالت سے رہا ہوجاتے ہیں ۔ افسوس تو یہ ہے کہ مخالفت کرنے والوں نے تمام حدیں عبور کر لی ہیں اور سرعام پھانسی دینے کو حیوانیت اور بربرازم قرار دے رہے ہیں۔ کاش مسلمانوں جیسے نام رکھنے والوں نے اللہ کے احکامات بھی جان لیے ہوتے۔ آئین میں اگر سرعام سزا دینے پر رکاوٹ ہے تو آئین شریعت اور سنت سے بالاتر نہیں ہوسکتا۔ خدا نہ کرے کہ مخالفت کرنے والوں کے بچوں پر کوئی افتاد پڑے کیونکہ جس کے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اس نے یہی مطالبہ کیا کہ ان قاتلوں کو سرعام پھانسی دی جائے۔ یہ اعتراض بھی احمقانہ ہے کہ سخت سزائوں سے جرائم کم نہیں ہوتے۔ کیا کبھی عمل کرکے دیکھا ہے؟