چور مچائے شور!

305

بزرگوں سے سنا ہے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ہر سمت افلاس کا پہرہ تھا، ناداری کا یہ عالم تھا کہ دفاتر میں کرسیاں تھیں نہ اسٹیشنری، حتیٰ کہ پیپر پنیں بھی دستیاب نہ تھیں، ببول کے کانٹوں سے کام چلایا جاتا تھا۔ آج پاکستان میں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جن کے گھروں میں بائیک نہ ہوں، ٹی وی نہ ہو، موبائل نہ ہوں، اشیائے ضروریات کتنی بھی مہنگی ہوں عوام کی اکثریت کی قوت خرید سے باہر نہیں ہوتیں۔ کسی بھی بازار میں چلے جائیے خریداروں کا رش دکھائی دے گا۔ بڑی بڑی عمارات، خوب صورت دفاتر اور کشادہ سڑکیں دکھائی دیں گی اور یہ سب کچھ ان چوروں اور ڈاکوئوں نے کیا ہے جن کے نام کا ورد وزیراعظم عمران اسم اعظم کی طرح کرتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے چیلے چاٹے یہ کہتے نہیں شرماتے کہ پاکستان کو 72 برسوں سے چور اور لٹیرے لوٹتے رہے اگر ان کے پیش اور حکمران واقعی لٹیرے تھے تو پاکستان کو اتنا خوب صورت کس نے بنایا؟۔ ہماری عدالتیں ازخود نوٹس لینے میں بڑی چابک دستی اور مہارت کا مظاہرہ کرتی رہتی ہیں مگر کسی عدالت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ بابائے قوم قائد اعظم اور شہید ملت نواب لیاقت کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو لگام ڈالتی۔ شاید نظام عدل بھی ہاتھی کی سواری ہے جو مہاوت کے اشاروں ہی پر چلتا ہے۔
سیاست دان، سیاسی مبصر اور سیاسی دانش ور بھی چپ کے بکل میں سر چھپائے بیٹھے ہیں۔ چوروں اور لٹیروں کے دور میں گوبھی دس سے پندرہ روپے کلو فروخت ہوتی تھی، آج 120 روپے تک فروخت ہوتی ہے، ٹماٹر بیس تا تیس روپے کلو بکتے تھے، آج 300 روپے تک فروخت ہوتے ہیں، آلو، بینگن، شلجم دس پندرہ روپے فی کلو فروخت ہوتے تھے، اب 80 روپے تک فروخت ہوتے ہیں، مٹر بیس پچیس روپے گلی کوچوں میں آواز لگا کر بیچے جاتے تھے، اب ایک سو ساٹھ روپے تک فروخت کیے جارہے ہیں۔ پٹرول، گیس اور دیگر چیزوں پر ہر ماہ کئی کئی بار اضافہ ہورہا ہے مگر چور مچائے شور کی حکمت پر عمل کرنے والے طفل تسلیوں کے سوا عوام کو کچھ اور دینے کے لیے آمادہ ہی نہیں۔ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں صبر کرو سب ٹھیک ہوجائے گا۔ خان جی کا ارشاد گرامی ہے کہ وہ بھی بہت پریشان اور تنگ دست ہیں، تنخواہ کے نام پر جو دو لاکھ روپے ملتے ہیں ان سے گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعظم کا گھر دو لاکھ میں نہیں چلتا ہے تو عوام جو دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں ان کا گھر کیسے چلتا ہوگا۔
پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کے نام پر قومی خزانہ برباد کیا جارہا ہے۔ کہنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام عمران خان کا گھر چلانے کی سازش ہے قوم کو خوش حال بنانے کے بجائے بھکاری بنایا جارہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کبھی اپنے لنگر خانوں میں جا کر دیکھیں وہاں کوئی بھی غریب نہیں ملے گا کیوں کہ غریب آدمی کو عزت نفس پر غرور ہوتا ہے کہ عزت نفس ہی اس کا اثاثہ ہوتا ہے۔ عمرانی لنگر خانے اور پناہ گاہیں دراصل منشیات کے عادی افراد اور گھر سے بھاگے ہوئے بچوں کا محفوظ ترین ٹھکانا بن رہے ہیں مگر ازخود نوٹس لینے والے کانوں میں تیل اور منہ میں گھنگھنیا ڈالے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کس کے ایجنڈے پر قوم کو بھکاری بنانے پر عمل پیرا ہے۔ حکمران کا کام عوام کو روزگار فراہم کرنا ہے انہیں بھکاری بنانا نہیں۔ لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کے بجائے عوام کو روزگار فراہم کیا جائے تا کہ وہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہ مریں، عوام کو سہولتیں مہیا کرنا حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ وزارتِ عظمیٰ کی مسند اڑن کھٹولا بن جائے تو مہنگائی کے بھی پَر لگ جاتے ہیں۔