روزنامہ ڈان 30جنوری کی اشاعت میں بھارت میں بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری اور محنت کش طبقے کی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں سسکتی ہوئی زندگی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ سست روی کی شکار معیشت نے معاشرے کے مختلف طبقات پر کیا اثرات مرتب کیے، اے ایف پی کی اس رپورٹ نے مودی حکومت پر دبائو میں اضافہ کیا ہے۔
راہول جس نے ایک ممتاز یونی ورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ ایک ملازمت سے ماہانہ 42ہزار روپے تک کما لیتا تھا جس کے بعد اس کا خیال تھا کہ وہ ہمیشہ ایک آسودہ زندگی گزار سکتا ہے لیکن جب معیشت سست روی کا شکار ہوئی اور ہزاروں افراد کو ملازمت سے نکال دیا گیا تو راہول بھی بے روزگار ہوگیا۔ اب اسے ملازمت کے لیے دھکے کھانے پڑ رہے ہیں۔ ’’میں انٹرویو کے لیے مختلف کمپنیوں میں اپنی تعلیمی اسناد بھیجتا ہوں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آرہا۔ بہت مایوس کن اور افسردہ صورت حال ہے‘‘۔ اب گھر چلانے کے لیے اسے اپنے والد کی بچت اور پنشن پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے۔
پچاس سالہ سروج کو 15ہزار روپے ماہانہ آمدنی کے لیے دو نوکریاں کرنی پڑتی ہیں۔ وہ ساری رات ملازمت کرتی ہے لیکن اس کی آمدنی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔ ہر ماہ کی 25تاریخ کو اس کے پاس پیسے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اسے محلے کے دکاندار سے چاول ادھار لینا پڑتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے روزانہ دو وقت وہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ کیا کھائے۔ پیاز بھی اب بنیادی ضرورت سے بڑھ کر عیاشی کی چیز بن گئی ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ آہیر جو چار افراد پر مشتمل کنبے کے ساتھ ایک تنگ کمرے میں رہتی ہے اس کا کہنا ہے کہ دولت مند لوگوں کے گھروں میں کام کرنا اذیت کا باعث ہے۔ میں ان کے یہاں جھاڑو پونچھا کررہی ہوں اور وہ مزے مزے کے کھانے کھا رہے ہوں تو دل میں جلن محسوس ہوتی ہے۔ ہم بھی اچھی زندگی اور اچھے کھانوں سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔
بھارت میں ہر طبقے کا یہ حال نہیں ہے۔ سب مہنگائی، غربت اور بے روزگاری سے متاثر نہیں ہیں۔ بھارت کی اسٹاک مارکیٹ ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ جو سرمایہ کاروں کو دولت میں اضافے کے مواقع مہیا کررہی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں ہندوستان کے ایک فی صد امیرترین طبقے کی دولت میں 46فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ایک فنانشل سروسز فرم کے منیجنگ ڈائر کٹر کا کہنا ہے ’’سلیکٹ اسٹاک کی کارکردگی بہت عمدہ ہے چو نکہ مالدار طبقے کو ایکویٹی میں بڑی رقوم مل جاتی ہیں اس سے وہ زیادہ سے زیادہ دولت مند ہوتے جارہے ہیں۔ ورنہ اس طرح کی معیشت میں دولت میں 46فی صد اضافہ آسان نہیں‘‘۔ ایشیا کے امیرترین آدمی مکیش امبانی کی سرکردگی میں چلنے والی ریلائنس انڈسٹریز 2019 میں 10کھرب روپے سے زیادہ مارکیٹ سرمائے کے ساتھ ہندوستان کی سب سے بڑی سرمایہ دار کمپنی بن گئی ہے۔
ہندوستان کے دولت مند طبقے کے علاوہ کسی کو ہرا ہرا دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگوں کی اکثریت غیر ضروری خریداری کے معاملے میں محتاط ہوگئی ہے۔ اسلم مالکانی کی ممبئی کی مارکیٹ میں اسمارٹ فون کی اسیسیریز کی دکان ہے۔ اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ پچھلے آٹھ ماہ کے دوران فروخت میں 80فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہوگئی ہے۔ ہم دکان کھولتے ہیں اور انتظار کرتے رہتے ہیں۔ میری عمر 36سال ہے۔ میں 16برس کی عمر سے کام کررہا ہوں لیکن ایسی بے روزگاری کبھی نہیں دیکھی۔ زندگی خوفناک حد تک مشکل ہوتی جارہی ہے۔ امید دم توڑتی جارہی ہے۔ جب کہ کچھ لوگ پہلے ہی زندگی سے مایوس ہوچکے ہیں۔
منا سنگھ ان سیکڑوں تارکین وطن کی بھیڑ میں شامل ہے جو ہر صبح ممبئی جنکشن پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ اسے کام مل جائے گا۔ راج مزدوری سے لے کر گندگی صاف کرنے تک کسی بھی طرح کا کام۔ 45سالہ سنگھ گزر اوقات کے لیے شمالی ہندوستان میں اپنا گائوں چھوڑ کر ممبئی آیا تھا۔ وہ پریشان ہے ’’روزگار کہاں ہے‘‘۔
نام تبدیل کردیے جائیں تو پاکستان میں بھی افلاس، بے روزگاری مہنگائی، غربت اور امارت کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کی صورت حال یہی ہے۔ دونوں سماج ایک ایسے پریشر ککر کا منظر پیش کررہے ہیں جو پھٹنے کے قریب ہے۔ معیشت، سیاست، ثقافت، ریاست، سفارت اور اخلاقیات کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو بحرانوں کی زد میں نہ ہو۔ پالیسی ساز ایک بحران سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے بحران میں پھنس جاتے ہیں۔ ایک دلدل ہے جہاں ایک قدم نکلنے کی کوشش مزید دھنسنے کا سبب بن جاتی ہے۔ پاکستان میں اس کا سبب جمہوریت کا عدم تسلسل، فوجی حکو متیں، کرپشن، عدم استحکام اور نہ جانے کن کن بحرانوں میں تلاش کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں یہ اسباب موجود نہیں رہے۔ وہاں پہلے دن سے آج تک جمہوریت کا تسلسل قائم ہے۔ ایک دن کے لیے بھی فوجی حکومت نہیں آئی۔ معیشت کی تیز رفتار ترقی کی بھی مثالیں دی جاتی ہیں، آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی مداخلت بھی نہیں، بیرونی سرمایہ کاری بھی خوب سے خوب تر ہے پھر بھارت میں اس درجہ غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کیوں ہے۔ سوا ارب کی آبادی کی اکثریت بدترین غربت اور ذلت کی زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہے۔ اسے بنیادی ضروریات تک رسائی کیوں حاصل نہیں ہے جب کہ 1990 سے وہاں سرمایہ دارانہ نظام کی علم بردار جماعت کی حکومت ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حشر سامانیوں کے بعد اب اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اور پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی دردناک غربت، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ ترقی پزیر اور افراتفری کا شکار غریب ممالک ہی نہیں ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک میں بھی صورت حال گمبھیر ہے۔ امریکا کی شرح نمو 2019 میں 2.3 تھی جو 2020 میں 1.8فی صد رہے گی۔ دھاندلی زدہ سرمایہ داری نے حالیہ دھائیوں میں ’’کمزور پیداواری نمو‘‘، ’’بے قابو عدم مساوات‘‘ اور ’’دیو ہیکل مالیاتی قرضوں‘‘ کی تثلیث کو جنم دیا ہے۔ مہذب سرمایہ داری نام کی کوئی چیز نہ کبھی موجود تھی اور نہ اب ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اصول اور قوانین دنیا بھر میں اکثریت کے استیصال کے ذریعے سرمایہ داروں کی قلیل اقلیت کی دولت میں اضافے کررہے ہیں۔
جمہوریت ہو یا آمریت، نواز شریف ہوں یا عمران خان یا پھر دینی جماعتیں جمہوریت کی چھتری تلے سب کو اسی سرمایہ دارانہ نظام کو اختیار کرنا ہے۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام میں ممکنہ حادثات اس قدر موجود ہیں کہ کوئی ایک حادثہ بھی سماج کے پورے ڈھانچے کو بحران میں مبتلا کرسکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام یونانی دیو مالا کا وہ دیو ہیکل پتھر ہے جسے بمشکل پہاڑ کی چوٹی تک پہنچایا جاتا ہے لیکن چوٹی پر پہنچتے ہی یہ پتھر دوبارہ نیچے کی طرف لڑھکنا شروع ہو جاتا ہے۔ یونان، اٹلی اور اسپین کی حکومتیں کمزوری کی تصویر ہیں۔ فرانس میں محنت کش طبقہ خوفناک کٹوتیوں کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کررہا ہے، برطانیہ میں کارخانے بند ہورہے ہیں۔ جرمنی کو کساد بازاری کا سا منا ہے۔ 1.5سے کم ہوکر 2019 میں جس کی شرح نمو 0.5فی صد رہنے کی پیش گوئی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام نے کوہ پیما کے اس رسے کی صورت اختیار کرلی ہے جہاں ایک کے گرنے پر سب گرتے ہیں۔ انسانیت کے دکھوں کا مداوا نہ سوشلزم کے پاس ہے اور نہ سرمایہ داریت کے پاس۔ مداوا اسلام کے نظام خلافت میں ہے جس میں معیشت سود کے بلبلوں پر نہیں سود کے بغیر مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ دنیا صدیوں اس نظام کی برکات سے فیض یاب ہوئی ہے جب افریقا میں بھی زکوٰۃ لینے والے ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملتے تھے۔