کراچی کے پارکوں کا تجارتی استعمال

202

میئر کراچی وسیم اختر حلف برداری سے اب تک اختیارات اور فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا رو رہے ہیں لیکن جب ان کو یا ان کی پارٹی کو ضرورت پڑتی ہے بھر پور اختیارات استعمال کرتے ہیں اور فنڈز کے دریا بہ نکلتے ہیں ۔ جو لوگ فنڈز کی خاطر الیکشن لڑیںفنڈز کے بغیر کام نہ کریں وہ فنڈز پیدا کرنا بھی خوب جانتے ہیں چنانچہ بلدیہ کراچی نے شہر کے ایک اچھے پارک باغ ابن قاسم کو تین روز کے لیے تجارتی استعمال کے لیے غیر قانونی طور پر دے دیا ۔ ایک نجی کمپنی کو کٹھ پتلی تماشے کے عوض میلے کے لیے دے دیا تھا ۔ اس دوران پارک میں داخلے کی فیس500 روپے تھی۔ آج کل کراچی سے تعلق رکھنے والے چیف جسٹس ہیں انہوں نے میئر کراچی کی سر زنش بھی کی ہے لیکن اس کے دو روز بعد یہ خبرمنظر عام پر آگئی کہ بلدیہ کراچی نے باغ ابن قاسم کو تجارتی استعمال کے لیے دیا تھا ۔ یہ کام صرف ایک جگہ نہیں ہو رہا بلکہ شہر کے چھوٹے بڑے بیشتر پارکوں میں تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور جھولے وغیرہ کھانے پینے کے اسٹالز ٹھیکے پر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے تفریح کے لیے آنے والے مجبوراً پیسے دے کر پانی ، چائے ،بچوں کے لیے اشیاء خریدتے ہیں جبکہ پارکوں میں جھولوں کو بھی ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے جن کے ٹھیکے دار پارک میں آنے والوں سے من مانی رقم اینٹھتے ہیں ۔میئرکراچی نے صحیح کہا تھا کہ ایک ارب تو ہم کھڑے کھڑے جمع کر سکتے ہیں چیف جسٹس میئر صاحب کو طلب کر کے شہر کے پارکوں ،کار پارکنگ کے ٹھیکے داروں اور سائن بورڈز کے علاوہ دکانوں سے ملنے والی فیسوںکا حساب بھی طلب کریں کہ ان مدات میں کتنی آمدنی ہوتی ہے ۔ ٹھیلوں اور پتھاروں سے لیے جانے والے بھتوں کا تو کوئی حساب نہیں ہے ۔ پھر بھی فنڈز او ر اختیار کا رونا ۔