سیاسی جونکیں!

219

کہتے ہیں گئے زمانے میں نیک دل بادشاہ راتوں کو بھیس بدل کر اپنی رعایا کی مشکلات اور ان کے معاشی حالات کا جائزہ لیا کرتے تھے، اس طریقے سے اپنی حکمرانی کی خامیاں اور رعایا کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی کوشش کیا کرتے تھے، بادشاہت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ بادشاہت میں ایک فرد ہی سیاہ سفید کا مالک ہوا کرتا تھا اس کے منہ سے نکلنے والا ہر حرف قانون کا درجہ رکھتا تھا، جمہوریت کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بادشاہت میں رعایا کو ایک خاندان کی پرورش کرنا پڑتی تھی جمہوریت میں ہزاروں خاندانوں کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر رکھنا ہوتا ہے۔ جمہوریت میں لاکھوں خاندانوں کو اپنا خون پلانا پڑتا ہے، سیاسی جونکیں عوام کا خون چوستی رہتی ہیں، بار بار خون چسوانے کا عمل عادت بن جاتا ہے اگر کوئی خون چوسنے والا نہ ملے تو عجب سی بے قراری اور بے چینی ہونے لگتی ہے۔
ایک رات مغل بادشاہ اکبر بیربل کے ساتھ بھیس بدل کر شہر کا گشت کررہے تھے ان کا گزر ایک مکان کے قریب سے ہوا جن کا مکین چارپائی پر لیٹا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر بادشاہ نے اس سے پوچھا۔ بھائی یہ تو بتائو اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے؟ کیا بات ہے ہمارے بادشاہ سلامت کی، ہر طرف امن وامان اور خوش حالی کا دور دورہ ہے، اللہ ہمارے بادشاہ کی عمر دراز کرے۔ اکبر بادشاہ نے فخریہ انداز میں بیربل کی طرف دیکھا اور کچھ دور جا کر کہا، دیکھا بیربل ہمارے راج میں رعایا کتنی خوش اور مطمئن ہے کچھ عرصے کے بعد دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا تو اکبر بادشاہ نے اسی آدمی سے پوچھا کیسے حال ہیں۔ کیا بتائوں ہر طرف لوٹ مار اور تباہی ہے ہر آدمی پریشان ہے، خدا غارت کرے اکبر بادشاہ کو ہر طرف چوروں اور لٹیروں کا راج ہے، عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ اکبر بادشاہ بہت حیران ہوا اسے ایسے جواب کی توقع نہیں تھی کیوں کہ اس کی معلومات کے مطابق عوام خوش حال تھی، بدامنی اور لوٹ مار سے محفوظ تھی۔ بیربل سے پوچھا اس آدمی نے ایسا کیوں کہا۔ بیربل نے ایک تھیلی دکھاتے ہوئے کہا اس میں دس اشرفیاں ہیں جو میں نے چوری کرالی ہیں اپنی اشرفیوں کی چوری سے بادشاہ سے بدظن ہوگیا ہے کیوں کہ ہر شخص اپنی خوش حالی کے تناظر میں دوسروں کو دیکھتا ہے لیکن بادشاہوں کو اپنی ذات سے باہر نکل کر حالات حاضرہ کو دیکھنا ہوتا ہے، رعایا کی خوش حالی اور اطمینان کا تعلق بادشاہ کی خوش حالی سے نہیں ہوتا۔
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور صدر مملکت عارف علوی اپنی ذات کے خول سے باہر نکلنے پر رضا مند ہی نہیں ہوتے۔ گندم بیرون ملک بیچ دیں گے تو عوام کیا کھائے گی، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ملک میں امن وامان کی کیا حالت ہے، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کردیا وہ اس کے بارے میں سوچتے ہی نہیں اگر کوئی ان معاملات پر توجہ دلائے تو حیرت سے پوچھتے ہیں ہمیں تو اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ جب میڈیا والے حیرت کا اظہار کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ درست ہے کہ ہمیں ملکی حالات کا علم ہونا چاہیے۔ مقام شکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ اعتراف تو کیا کہ مہنگائی بہت ہے دو لاکھ روپے میں گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے مگر انہیں یہ جاننے کی توفیق نہ ہوئی کہ جو شخص پندرہ سے بیس ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے اس کا گھر کیسے چلتا ہوگا، گھر کا کرایہ بجلی اور گیس کا بل بھرنے کے بعد بچوں کے اسکول کی فیس کیسے ادا کرتا ہوگا۔ ریاست مدینہ کے نام پر قوم کے جذبات سے کھیلنے والوں کو علم ہونا چاہیے کہ ریاست مدینہ کا حکمران ایک مزدور کی یومیہ مزدوری کے برابر بیت المال سے لیتا ہے۔