گھروں پر قبضے کی خطرناک روایت

310

عدالت عالیہ لاہور نے سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے گلبرگ میں موجود گھر کو پناہ گاہ بنانے کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا ہے ۔ جس وقت پنجاب حکومت یہ غیر قانونی اقدام کر رہی تھی اس وقت یہ ظاہر تھا کہ عدالت اس کو رکوا دے گی۔ گو کہ یہ گھر کاغذات میں اسحاق ڈار کی بیگم کے نام ہے تاہم معروف اسحاق ڈار کے نام سے ہے اور اسحاق ڈار کا تعلق چوں کہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف سے ہے اس لیے اس پر قبضے کے لیے کسی بھی قانون کی پروا نہیں کی گئی ۔ اس سے پہلے اس گھر کو نیلام کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کسی نے بولی ہی نہیں دی ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ خریداری میں دلچسپی رکھنے والوںکو معلوم ہے کہ یہ سیاسی اور قانونی مسئلہ بنے گا اور کچھ پتا نہیں کہ آئندہ کس کی حکومت ہو ، کہیں رقم ہی ضائع نہ ہو جائے ۔ جہاں تک اس گھر کو سرکاری طور پر پناہ گاہ بنانے کا تعلق ہے تو قانون کے مطابق حکومت ملکیت حاصل کیے بغیر یہ کام نہیں کر سکتی ۔ اور گھر کی ملکیت ابھی اس کے مالکان ہی کے پاس ہے ۔ کیا کسی وکیل ، قانون دان یا راجا بشارت وغیرہ نے حکومت پنجاب کو یہ نہیں بتایا کہ یہ کام غیر قانونی ہو گا یا یہ طے ہو چکا ہے کہ کسی بھی سطح پر قانون کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا ۔ کسی کے گھر کو پناہ گاہ بنانے پر عمرانی ٹیم نے خوب بغلیں بجائیں کہ اسحاق ڈار سے یہ نیکی کا کام سرزد ہوا ہے ، اس پر انہیں خوش ہونا چاہیے ۔ یقیناً یہ نیکی کا کام ہے لیکن لاہور ہی میں زمان پارک کا مکان خالی پڑاہوا ہے ، اسے بھی پناہ گاہ بنا دینا چاہیے ۔ اس پر ایک بڑبولے کا جواب آیا کہ عمران خان نے وہ حرکتیں نہیں کیں جو اسحاق ڈار نے کی ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان عموماً بنی گالا کے شاندار مکان میں رہتے ہیں تو کیوں نہ وزیر اعظم ہائوس کو پناہ گاہ بنا دیا جائے ۔ عمران خان کو یاد ہو گا کہ انہوں نے فرمایا تھا جس دن اقتدار سنبھالا اسی دن گورنر ہائوس لاہور کے باہر بلڈوزر کھڑے ہوں گے جو اس کی دیواریں ڈھا دیں گے ۔ گورنر ہائوس لاہور کی وسعت پر عمران خان پہلے بھی تنقیدکرتے رہے ہیں ۔ دیواریں نہیں ڈھاتے تو آدھے حصے میں ایک بڑی پناہ گاہ بن سکتی ہے ۔ گورنر بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں جو لندن میں مرغی انڈوں کا وسیع کاروبار اپنے بیٹے کے حوالے کر کے پاکستان آئے اور سب سے بڑے صوبے کے گورنر بن گئے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب ذرا وزیر اعلیٰ ہائوس پر بھی نظر ڈالیں ۔ اس میں بھی کئی پناہ گاہیں بن سکتی ہیں ۔ ویسے گورنر ہائوس ، وزیرا علیٰ ہائوس ہی کیا ایوان وزیر اعظم بھی بہت لوگوں کی پناہ گاہ ہے ۔ سیاسی مخالفین کے گھروں پر قبضہ کرنے کی روایت نہ ڈالیں،کوئی حکومت ہمیشہ نہیں رہتی۔مفرور سابق صدرپرویز مشرف کو تو عمران خان کی خاموش تائید حاصل ہے ۔ چک شہزاد میں ان کا عالی شان فارم ہائوس تو عمران خان کی ناک کے نیچے ہے ۔ اس کو تو اب تک ضبط کر لینا چاہیے تھا ۔ اس سے بہتر پناہ گاہ اور کون سی ہو گی ۔ وہ مقدمات میںمطلوب ہیں اور ان کے پاکستان آنے کا کوئی امکان نہیں ۔ حکومت اس پر قبضہ کر کے پناہ گاہ بنائے یا یتیم خانہ ۔ لیکن سلیکٹرز یہ ہونے نہیںدیں گے ۔ دوسری طرف تجاوزات کے نام پر گھر گرائے جار ہے ہیں ۔ ان بے گھر ہونے والوں کے لیے بھی کوئی پناہ گاہ ہے؟