صرف45 کروڑ ڈالر کیلئے…

451

وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں سرکاری اداروں کی نجکاری اور نئے ٹیکس لگانے کی یقین دہانی کرا دی ہے ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈنے پاکستان میں ٹیکس وصولیوں میں کمی پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ چونکہ پاکستان میں موجودہ حکومت بھی قرضوں پر انحصار کرتی ہے اس لیے قرضے کی نئی قسط کی خاطر ہر شرط ماننے کو تیار ہے ۔ چنانچہ حکومت نے فوری طور پر سرکاری اداروں کی تعداد کم کرنے سے اتفاق کرلیا اس معاملے میں تیزی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر تک98 ادارے ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔مزید یہ کہ 2پاور پلانٹس سمیت6 ادرے اور27 جائیدادیں فروخت کر دی جائیں گی ۔ اس سب کے عوض پاکستان کو6 ارب ڈالر قرض میں سے 45 کروڑ ڈالر کی ایک اور قسط مل جائے گی ۔ پی ٹی آئی حکومت اور وزیر اعظم بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ پچھلے چور حکمرانوں کی وجہ سے ملک اس حال کو پہنچا ہے تو یہ وہ معاملہ ہے جس میں حکومت سچ بول رہی ہے ۔ پچھلی حکومت اس سے پچھلی اور ان سے پچھلی حکومتیں آئی ایم ایف کی غلام رہی ہیں اور عمران خان آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خود کشی کرناقرار دیتے تھے اب وہ پوری قوم کو لے کر خود کشی کر چکے ہیں لہٰذا موجودہ حکومت کی کیفیت اس نشے کے عادی جیسی ہو گئی ہے کہ وہ ایک پڑیا کی خاطر اپنا گھر بار ، بیوی بچے سب کو بیچ دیتا ہے اسی طرح ہماری حکومت45 کروڑ ڈالر کی پڑیا لینے کی خاطر چھ ماہ میں 98 ادارے ختم کرنے پر تیار ہے ۔ کیا مشیر خزانہ کو یہ نہیں معلوم کہ 98 ادارے اور 2پاور پلانٹس ختم کرنے سے معیشت پر کیا اثر پڑے گا ۔ کتنے لوگ بے روز گار ہو جائیں گے ۔ دنیا بھر میں اچھی حکومتیں ادارے بناتی ہیں اور ہماری حکومتیں ادارے ختم کرتی ہیں ۔ یہ سوچ لیا جائے کہ صرف پاکستان اسٹیل آج اپنی استعداد کے مطابق 70 فیصد ہی پیدا وار کر رہی ہوتی تو پاکستان کو سی پیک میں کس قدر فائدہ ہوتا ۔ اب بھی اسٹیل ملز کو چلا کر یہ کام لیا جا سکتا ہے لیکن یہاں تو بیچو اور بھاگو ۔ ’’لٹوتے پھٹو‘‘ والا محاورہ چل رہا ہے ۔45 کروڑ ڈالر کی پڑیا لے کر یہی اقدامات کر رہے ہوں گے کہ اگلی قسط اور اگلے مذاکرات شروع ہو جائیں گے ، مزید وعدے اور مزید شرائط…یہ غیر ملکی اور عالمی اداروں کے مشیر ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں ۔ وزیر اعظم اربوں روپے کے پیکیج کا اعلان کر رہے ہیں ۔ یہ رقم کہیں سے کاٹ کر دیں گے ۔ تو جہاں سے رقم کاٹی جائے گی وہاں کیا ہو گا ۔ ادارے ختم کرنے اور لوگوں کو ملازمت سے فارغ کرنے کے لیے ۔ تین تین ماہ کی تنخواہیں دینی ہوں گی ۔ یہ رقم بھی کہیں سے حاصل کی جائے گی اور وہاں مسائل پیدا ہوں گے انہیں سابقہ حکمرانوں کا ورثہ قرر دے دیا جائے گا ۔ قرض کی معیشت میں یہی ہو گا ۔ سودی نظام میں ایسا ہی ہوگا اور عالمی اوپن مارکیٹ میں بھی یہی ہو گا ۔ اگر حکمران کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے سود سے جان چھڑائیں ، سودی قرضوں کے جال سے نکلیں ۔ ادارے بند نہیںکریں ادارے بنائیں۔ ان کواصولوں اور ضوابط کے مطابق چلائیں روزگار دیں ۔ حکومت کے اقدامات سے روز گار بھی چھن رہا ہے اورمہنگائی بھی بڑ ھ رہی ہے ۔اب تو صدر مملکت بھی شکوہ کرنے لگے کہ دوبرس میں22 لاکھ افراد کا بے روز گار ہو جانا تشویش کا باعث ہے ۔ صدر نے اب لوگوں کو فارغ کرنے کا کہا ہے اور وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ مشیر خزانہ اورگورنر اسٹیٹ بینک کسی صورت تبدیل نہیں ہوں گے ۔ کیونکہ ان کے بقول یہ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔ وزیر اعظم بھی عجیب انکشافات کرتے ہیں ۔ اب جبکہ ایف بی آر کے چیئر مین ٹیکس وصولی میں ناکام ہو گئے ہیں تو کہا جارہا ہے کہ میری درخواست پر صرف6ماہ کے لیے شبر زیدی آئے تھے ۔ تو وزیراعظم فرمائیں کہ6 ماہ میں ان کی درخواست پر کیا تیر مارے گئے اور سارے تیر کس کو لگے… عمران خان یہ بھی بتا دیں کہ وہ کس کی درخواست پر کتنے عرصے کے لیے آئے ہیں ۔پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف کو جس چیز کی یقین دہانی کرائی ہے آئی ایم ایف کو اس پر پہلے بھی یقین تھا کہ جوکہیں گے کریں گے ۔ لہٰذا یقین دہانی مسئلہ نہیں ہے ۔ مسئلہ نتائج ہیں جو عوام کوبھگتنا ہوں گے ۔بجلی مہنگی، پیٹرول مہنگا ، گیس مہنگی ، ایل این جی مہنگی ، سی این جی مہنگی اور غائب ۔ بے روز گاری عام۔ ان سب کی قیمت صرف45 کروڑ ڈالر ۔ اگلے45 کروڑ کیلیے مزید تباہی ۔